Screenshot_2025_0502_180320

ایف آئی اے کی حوالہ ہنڈی کے خلاف ڈیڑھ ماہ میں کی جانے والی دو بڑی کارروائیاں اچانک متنازع بن گئیں اور حیرت انگیز طور پر ان کارروائیوں پر معروف مذہبی مبلغ مولانا طارق جمیل کے مبینہ اثر و رسوخ کے سائے پڑ گئے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ایک کارروائی کو مقدمے میں تبدیلی سے روکا گیا جبکہ دوسری کارروائی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تفتیشی افسر کو معطل کردیا گیا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کراچی کی ڈیڑھ ماہ کے دوران معروف گروپ وائٹل ٹی کے خلاف حوالہ ہنڈی کی کارروائیاں خود ادارے کے لیے مہنگی پڑ گئیں۔
گروپ کی جانب سے مولانا طارق جمیل کے ذریعے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل راجہ رفعت مختار پر دباؤ ڈالنے نے ایف آئی اے کی شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے 4 اکتوبر 2025 کو جاری کردہ اپنی پریس ریلیز میں وائٹل ٹی گروپ کے خلاف حوالہ ہنڈی کیس کی تفصیلات جاری کیں، لیکن چند دنوں بعد اسی مقدمے کی تفتیش کو خراب کردیا گیا۔

یاد رہے کہ 26 اگست کو ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے بھی وائٹل ٹی گروپ کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا، مگر یہ کارروائی بغیر کسی قانونی کارروائی کے ادھوری چھوڑ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق اس دوران یا تو مبینہ طور پر مالی لین دین طے ہوگیا تھا یا پھر گروپ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ٹیم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

قابلِ ذکر ہے کہ ایف آئی اے کی حوالہ ہنڈی کارروائیوں میں عموماً مخبر خاص کو 10 تا 15 فیصد رقم ادا کی جاتی ہے، تاہم بڑی کارروائیوں میں یہ شرح 5 فیصد تک گر جاتی ہے، جس کا تعین افسران خود کرتے ہیں اور یہی اندرونی کمزوری اکثر کرپشن کی بنیاد بنتی ہے۔

دوسری کارروائی 2 اکتوبر کو ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے ٹیپو سلطان روڈ اور شارع فیصل پر دو مقامات پر کی، جہاں سے دو ملزمان گرفتار اور ایک کروڑ روپے برآمد ہوئے۔
ایف آئی اے کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل راجہ رفعت مختار اور ڈائریکٹر کراچی منتظر مہدی نے اس کارروائی کو شاندار کامیابی قرار دیتے ہوئے ٹیم کو سراہا مگر چند ہی دنوں بعد یہی کارروائی ادارے کے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئی۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں مولانا طارق جمیل نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے راجہ رفعت مختار سے ملاقات کی اور اس مقدمے پر اپنے گلے شکوے پیش کیے۔
اس ملاقات کے بعد ایف آئی اے ہیڈکوارٹر نے اچانک کیس کی مکمل فائل طلب کرلی اور 8 اکتوبر کو ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد علی ابڑو کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کاؤنٹر ٹیررازم ونگ رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا جبکہ تفتیشی افسر حبیب الرحمان کو بھی معطل کردیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سیاسی دباؤ اور مولانا طارق جمیل کے مذہبی اثر نے ایک ساتھ اس تبادلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دوسری جانب وائٹل ٹی گروپ نے الٹا ایف آئی اے پر الزام لگایا کہ ادارہ جان بوجھ کر ان کے گروپ کو نقصان پہنچا رہا ہے اور سوال اٹھایا کہ ایک ہی گروپ کے خلاف دو سرکلز کارروائیاں کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ایف آئی اے کے اپنے افسران آپس میں رابطے میں نہیں؟

اب سوال یہ ہے کہ اگر ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل بغیر کسی قانونی کارروائی کے پیچھے ہٹ گیا تو کیوں؟
اور اگر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے قانون کے مطابق کارروائی کی تو انہیں سزا کیوں ملی؟
کیا ایف آئی اے میں ایماندار افسران کی جگہ دباؤ کے سامنے جھکنے والے اہلکاروں کو ترجیح دی جارہی ہے؟

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بعد ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے زونل ڈائریکٹرز کو غیر تحریری ہدایات دینے جا رہے ہیں کہ کسی بھی کارروائی سے قبل اثر و رسوخ رکھنے والے گروپس یا افراد کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جائے۔

یہ واقعہ نہ صرف ایف آئی اے کے اندرونی ڈھانچے کی کمزوری اور کرپشن کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی چھوڑ جاتا ہے کہ
کیا پاکستان میں قانون صرف کمزور کے لیے ہے اور طاقتور کے لیے رعایت ہے؟