Screenshot_2025_1206_210939

سندھ حکومت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ماتحت اسپتالوں میں کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے نام پر نئی ملازمتوں کے لئے کراچی کے کوٹے کو ختم کرنے کی نئی حکمت عملی اختیار کرلی ہے،میٹروپولیٹن ادارے کے لئے کراچی ڈومیسائل کے بجائے سندھ کے ڈومیسائل کو ترجیح دینا شروع کردی گئی،میونسپل کمشنر افضل زیدی نے خلاف ضابطہ اپنے ماموں کو رجسٹرار کے عہدے پر تعینات کردیا،کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں غیر قانونی رجسٹرار کی تعیناتی کے ذریعے اس پورے عمل کی نگرانی کرائی جارہی ہے جبکہ میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے زریعے عباسی شہید اسپتال، سوبھراج، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سمیت دیگر اسپتال سندھ حکومت کے مکمل ماتحت چلے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے نام پر سندھ حکومت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ماتحت اسپتالوں کو اپنے زیر انتظام لینے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ جامعہ کراچی سے منسلک کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی اراضی پر ہی قائم کی جانے والی کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے ملازمین کے مستقبل، نئی بھرتیوں میں کراچی کے کوٹے کے خاتمے اور غیر قانونی بھرتیوں پر کارروائی کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے دیگر اضلاع سے ملازمین کو مبینہ ترجیح دینے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے جبکہ ادارے میں نااہل انتظامیہ کی تعیناتی کے ذریعے مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔جس کی واضح مثال یونیورسٹی میں رجسٹرار کے عہدے پر تعینات محمود احمد خان ہیں جنہیں ڈیپوٹیشن پر پہلے تعینات کیا گیا اور وہ رواں ماہ گریڈ 18 میں اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والے ہیں اس سے قبل انہیں گریڈ 20 میں رجسٹرار کے عہدے پر تعینات کیا گیا اور اس ساری حکمت عملی کے پیچھے میونسپل کمشنر افضل زیدی ہیں جو موجودہ رجسٹرار محمود احمد خان کے بھانجے ہیں۔اسی بنیاد پر انہیں پرنسپل کا اضافی چارج بھی دیا گیا جس کے لئے پروفیسر ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے انہیں علیحدہ سے ایک دوسرے کالج کا بھی چارج سونپا گیا ہے ۔

کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں چھپے مالی گھپلوں،غیر قانونی بھرتیوں، ساز باز اور غیر قانونی اپ گریڈیشن” کے نام پر مراعاتی مافیا کے گٹھ جوڑ کا پردہ اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رجسٹرار محمود احمد خان نے من پسند افراد کو غیر قانونی طور پر بھرتی کیا جس میں ان کی بیٹی سمیت دیگر اہل خانہ بھی شامل ہیں جبکہ دیگر ترجیحات میں میٹروپولیٹن ادارے میں خلاف ضابطہ کراچی ڈومیسائل کے بجائے سندھ ڈومیسائل پر ملازمت کو ترجیح دی گئی ہے۔ان ملازمتوں میں بغیر میرٹ کے 17 سے زائد کلیدی پوسٹس بند کمروں میں الاٹ ہوئیں،بعض افسران گریڈ 18 اور 20 کے برابر مراعات اور متعدد ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں جب کہ غیر قانونی اپ گریڈیشن کے ذریعے لاکھوں روپے کی مراعات مخصوص افراد کو منتقل کی گئیں ہیں۔ان فیصلوں کو قواعد کی کھلی خلاف ورزی اور یونیورسٹی کی گورننس پر سنگین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں صوبائی اینٹی کرپشن نے کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر چھاپے کے زریعے ریکارڈ وصول کیا ہے اور اس معاملے پر تحقیقات بھی جاری ہیں۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اہم فائلوں پر اوور رائٹنگ،پے رول میں ڈبل انٹریز،مختلف آرڈرز پر مشکوک ،جعلی دستخطوں کے آثار اور متعدد دستاویزات غائب ہیں۔ایسا تاثر مل رہا ہے کہ بدعنوانی کے اس نیٹ ورک نے ریکارڈ کو دانستہ مسخ کیا تاکہ نشانات مٹ جائیں۔

تحقیقات میں شواہد ملے ہیں کہ یونیورسٹی رجسٹرار محمود احمد خان نے نہ صرف اپنی مرضی کے مطابق بھرتیاں کروائیں بلکہ انہی غیر قانونی فیصلوں کی آڑ میں خود بھی لاکھوں روپے کے الاونسز حاصل کیے، جس کا کوئی قانونی جواز نہیں مل سکا ہے۔

ذرائع کے مطابق جیسے ہی تحقیقات میں سوالات سامنے آنا شروع ہوئے ہیں کچھ افسران اچانک چھٹیوں پر چلے گئے اور ریکارڈ روکنے اور دباؤ ڈالنے کی کوششیں شروع ہوئیں،یہ طرز عمل ثابت کرتا ہے کہ اندرونی گٹھ جوڑ تحقیقات روکنے کے لیے سرگرم ہے۔

دستاویزات کے مطابق اہم بلز، واؤچرز اور ریکارڈ میں سنگین تضادات،ترقیاتی منصوبوں میں من پسند کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کے لئے طریقہ کار میں تبدیلیاں،مالیاتی ریکارڈ پیچیدہ بنا کر شفافیت سے جان بوجھ کر فرار اور بعض اہم دستاویزات کا غائب ہونا یہ چند افراد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم نیٹ ورک ادارے کے مالی و انتظامی فیصلوں پر اثرانداز ہے۔

یونیورسٹی کے اساتذہ اور اسٹاف نے صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تمام ملوث عناصر کے خلاف شفاف کارروائی کی جائے۔یہ کیس نہ صرف کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی کی شفافیت بلکہ پورے بلدیاتی نظام کی ساکھ پر بڑا سوال بن چکا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید اہم نام سامنے آنے کا امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے