FIA gambling

ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں آن لائن گیملنگ کا اہم مقدمہ تفتیشی افسران کی ناقص حکمت عملی اور مبینہ طور پر جانبداری کے باعث عدالتی کارروائی میں کمزور ہوگیا.

عدالت میں تفتیشی افسر سے سوال ہوا کہ ایک جواری کی شکایت پر مقدمے کا اندراج کیا گیا تو تفتیشی افسر کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ ایک ملزم کو مدعی بنادے، جن تین کمپنیوں کو آن لائن گیملنگ کی رقم منتقل ہوئی اس کا گرفتار ملزمہ سے کوئی تعلق بھی نہیں سامنے اسکا،عدالت نے مقدمے میں گرفتار ملزمہ اور ملزم کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

1b064353-560c-4b92-bc57-d1c1c6cb1ccb 3d38ed26-1376-47da-95b0-53205d034147 40b54685-c258-49ec-8489-ef753aa023a1 7445dbe2-3984-43a4-a691-09d9ffb429c6 17230c7a-145a-4629-93b9-4905c890e118

ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی تفتیشی افسر عمارہ قریشی نے آن لائن گیملنگ میں ویسٹ ویو اپارٹمنٹ گارڈن ایسٹ کے رہائشی سنجے کمار ولد سریش کمار نامی درخواست گزار کی شکایت پر 30/2023 کی انکوائری کو اپریل 2024 میں مقدمہ الزام نمبر 08/2024 میں تبدیل کیا تھا اس مقدمے میں ایف آئی اے کی تفتیشی افسر نے رباب خان زوجہ اعظم بیگ ،شجاعت اور طارق میمن ولد محمد حسین کو گرفتار کیا تھا جب کہ اس مقدمے میں ایف آئی اے نے 88 کروڑ سے زائد مشتبہ ٹرانزیکشن کا الزام عائد کیا کہ یہ رقم آن لائن گیملنگ سے حاصل کی گئی اور اس رقم کو مختلف کمپنیوں کے کھاتوں کے زریعے بیرون ملک منتقل کیا گیا۔

ایف آئی اے کے درج مقدمے میں درخواست گزار نے اپنے بیان میں تفتیشی افسر عمارہ قریشی کو بتایا کہ اس نے ڈائمنڈ ایکسل نامی ایپ پر دو برس میں 16 لاکھ کے قریب جوئے پر اپنی رقم لگائی جس سے 4 لاکھ روپے جیتا جبکہ باقی رقم ہار گیا جس پر میرے اہل خانہ اور دوستوں نے جوئے کی اس ایپ کو چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالا یہ ایپ مجھے میرے دوست سمیر سلیمان نے بتائی تھی اور اس ایپ پر جوا کھیلنے کی رقم میں نے لیوش ٹریڈرز ،رضوان ٹریڈرز اور رابی ٹریڈرز نامی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کیں اس پر ایف آئی اے تحقیقات کرئے کہ یہ اکائونٹس کس کے نام پر ہیں اور کون چلا رہے اس کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کرئے۔

واضح رہے کہ آن لائن گیملنگ کے اس مقدمے میں دو گروپوں کے درمیان سرد جنگ کا اثر نظر آیا اور ایف آئی اے نے مبینہ طور پر ایک گروپ کی حمایت کرتے ہوئے دوسرے گروپ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جس کی وجہ سے عدالت میں تفتیشی حکام کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور عدالتی کارروائی کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب تفتیشی افسر نے سرکاری وکیل پر ہی رشوت کی رقم لینے کا الزام عائد کردیا جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو جھاڑ دیا۔

ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے درج مقدمے میں عدالتی کارروائی کے دوران مدعی کی درخواست میں موجود تینوں کمپنیوں کا گرفتار ملزمہ رباب خان سے کوئی تعلق سامنے نہیں آیا جب کہ رباب کے شوہر اعظم بیگ کے اکاؤنٹس میں ایک کمپنی کی ٹرانزیکشن سامنے آئی تاہم اعظم بیگ نے اپنے وکیل کے توسط سے عدالت میں جواب جمع کرایا کہ ایک کمپنی سے دس لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن میں الیکٹرونکس آئٹم کی خریداری کی گئی تھی جس میں 9 لاکھ روپے مالیت کا سامان واپس ہوا تھا وہ ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی عدالت میں جمع کرادی گئیں۔

عدالتی کارروائی کے دوران تفتیشی افسر ملزمان کے وکلاء اور معزز جج صاحبان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب بھی نہیں دے سکے جس پر عدالت نے گرفتار ملزمہ رباب خان اور گرفتار ملزم طارق میمن کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔