Screenshot_2025_0502_180320

وفاقی وزارت داخلہ نے زیرِ حراست تشدد، غیر قانونی حراست اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے تدارک کے لیے ایک اہم قانونی اقدام اٹھاتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دائرہ کار میں انسدادِ تشدد یونٹ کے قیام کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔

یہ اقدام انسدادِ حراستی تشدد و موت کی روک تھام کا قانون 2022 کے نفاذ کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، جس کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اور سرکاری افسران کی جانب سے کسی بھی غیر قانونی اقدام کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء ہیڈکوارٹر بختیار چنہ کے دستخط سے اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے عبوری اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) جاری کر دیا ہے، جو وزارت داخلہ کی جانب سے قواعد کے اجرا تک نافذ العمل رہے گا۔

ایس او پی کے مطابق تمام زونز میں انسدادِ کرپشن سرکلز کے تحت اے ٹی یوکا قیام عمل میں لایا جائے گا، جن کی نگرانی گریڈ 17 کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کریں گے، جبکہ سرکل انچارج ان کی کارکردگی کی براہ راست نگرانی کے ذمہ دار ہوں گے۔زونل ڈائریکٹرز کو عملہ، مالی وسائل اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

ایف آئی اے نے شکایات کی جانچ کے لیے واضح ٹائم لائن متعین کی ہے،ہر شکایت کی ابتدائی انکوائری 15 روز میں مکمل کرنا لازم ہے۔مخصوص حالات میں زونل ڈائریکٹر کی منظوری سے 5 دن کی توسیع کی جا سکتی ہے، یوں مجموعی مدت 20 دن سے تجاوز نہیں کر سکتی۔

شکایت کنندہ کی شناخت اور تصدیق بھی اسی مدت میں مکمل کی جائے گی۔

ایف آئی اے نے متنبہ کیا ہے کہ تاخیر یا کوتاہی کی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف محکمانہ و فوجداری کارروائی کی جائے گی۔

قانون کے سیکشن 5 کے مطابق ایف آئی اے کی انکوائری اور تفتیش کی نگرانی نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ ار) کرے گا۔ اس مقصد کے لیے ہرانکوائری کی اطلاع فوری طور پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ونگ کو دی جائے گی، جو این سی ایچ ار کو آگاہ کریں گے۔

ہر کیس کے لیے فارمیٹڈ رپورٹس (Annexure A, B, C) تیار کی گئی ہیں۔

اگر کسی افسر کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے یا اسے گرفتار کیا جاتا ہے، تو متعلقہ افسر 24 گھنٹوں کے اندر اس کی اطلاع اعلیٰ حکام کو تحریری طور پر دے گا، تاکہ سیکشن 7 کے تحت محکمانہ کارروائی کا آغاز کیا جا سکے۔

ہر یونٹ انچارج اپنی کارکردگی کی رپورٹ ماہانہ بنیادوں پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ونگ کو ارسال کرے گا، جو زونل سطح پر اعداد و شمار مرتب کر کے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق سے شیئر کریں گے۔

ایس او پی میں واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی افسر اگر ان ہدایات سے انحراف کرتا ہے، تو اس کے خلاف سخت تادیبی اور فوجداری کارروائی کی جائے گی۔

یہ اقدام نہ صرف ایک قانونی اور انتظامی پیش رفت ہے بلکہ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کی سمت ایک پالیسیاتی سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین نے اس اقدام کو قابلِ تحسین قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایس او پی پر مؤثر عملدرآمد ہی اس کا اصل امتحان ہوگا۔

ایف آئی اے کے انسدادِ تشدد یونٹ کی تشکیل اور ایس او پی کا اجراء، ریاستی اداروں کے اندر جوابدہی، شفافیت اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے عمل کو تقویت دینے کی جانب ایک مؤثر پیش رفت ہے۔ اس عمل کو قانون کے حقیقی نفاذ میں تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سول سوسائٹی، عدلیہ، میڈیا اور خود ریاستی ادارے اس عمل کی مستقل نگرانی اور جائزہ لیتے رہیں۔