
پاکستانی آم کی برآمدات میں شعبہ قرنطینہ کی بے ضابطگیوں کے باعث بحران اور مخصوص (درانی گروپ)کو نوازنے کا انکشاف ہوا ہے۔
کیا پاکستانی آم کی برآمدات مخصوص گروہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں؟
کیا قرنطینہ ڈیپارٹمنٹ سرکاری اثرورسوخ کے زیر اثر چل رہا ہے؟
کیا اس کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا بھی استعمال کیا جائے گا۔؟
کیا پاکستانی آم، جو ہماری زرعی برآمدات کی شان سمجھے جاتے ہیں، مخصوص گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟ کیا پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (ڈی پی پی) محض ایک کاغذی ادارہ بن چکا ہے، جو من پسند گروہوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو حالیہ سینیٹ اجلاس، ایرانی اعتراضات، اور درجنوں ایکسپورٹرز کے الزامات کے بعد اب پوری شدت سے سامنے آ رہے ہیں۔
کیا درانی گروپ دوبارہ برآمدی نظام پر قابض ہو رہا ہے؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے حالیہ اجلاس میں ایسے سوالات اٹھائے گئے جو مبینہ طور پر صرف ایک مخصوص گروہ — درانی گروپ — کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ وہی گروہ جس پر ایران نے دو برس قبل معیاری عمل سے انحراف کا الزام لگایا، اب دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کر رہا ہے؟
کیا قرنطینہ ڈیپارٹمنٹ کی سرپرستی میں جعلسازی کی گئی؟
ایرانی حکام نے جب۔24 2023 میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کا دورہ کیا، تو انکشاف ہوا کہ ایک ہی پلاٹ (پلاٹ نمبر 55، قذافی ٹاؤن، کراچی) پر تین مختلف ناموں سے پلانٹ رجسٹرڈ ہیں ، تمام درانی گروپ سے منسلک، کیا یہ دہرا اندراج اور جعلسازی نہیں؟ پھر کیوں نہ ڈی پی پی نے وقت پر ایکشن لیا؟ کیا یہ سنگین غفلت نہیں بلکہ ملی بھگت تھی؟
ڈی پی پی میں غیرقانونی تقرری، کسٹم افسر کی تعیناتی کیوں؟
قومی قوانین کے تحت پلانٹ پروٹیکشن کے ادارے کی قیادت کسی تجربہ کار اینٹامولوجسٹ یا پی ایچ ڈی سائنسدان کو سونپنی چاہیے۔ مگر حالیہ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ اس اہم ترین ادارے میں کسٹمز سروس سے تعلق رکھنے والے افسر کو تعینات کیا گیا ہے۔ کیا یہ تقرری نیشنل فوڈ رولز کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
آڈٹ میں جانبداری؟ کیا بااثر افراد نے ٹیم کو تبدیل کروایا؟
ریکارڈ کے مطابق ڈی پی پی کی آڈٹ ٹیم نے درخواست کی کہ پلانٹس کی جانچ پڑتال ڈائریکٹر (ٹیکنیکل) ڈاکٹر اشفاق کی نگرانی میں کی جائے۔ مگر نہ صرف اصل ٹیم کو ہٹا دیا گیا بلکہ معاہداتی ناتجربہ کار ماہرین حشرہ کے ذریعے محض چند دن میں آڈٹ مکمل کر کے پاک سن گرین (جو درانی گروپ ہی کا دوسرا نام بتایا جا رہا ہے) کو منظوری دے دی گئی۔ کیا یہ بدنیتی پر مبنی عمل نہیں؟ کیا یہ قومی مفاد کے خلاف سنگین سازش نہیں؟
کیا سینیٹ کمیٹی نے جان بوجھ کر دیگر برآمدکنندگان کو نظر انداز کیا؟
اگر اجلاس آم کے برآمدی بحران پر تھا، تو دیگر اسٹیک ہولڈرز کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ کیوں صرف وہی گروپ مدعو ہوا جس کا لائسنس ایران کی شکایت پر معطل ہو چکا ہے؟ کیا یہ سینیٹ کمیٹی کا غیر جانبدار کردار متاثر نہیں کرتا؟ کیا عوامی مفاد پر ذاتی مفاد غالب آ چکا ہے؟
درانی گروپ کی اجارہ داری کے کیا نقصانات ہوئے؟۔ایران کو برآمدات میں شدید کمی،دیگر برآمدکنندگان کو کروڑوں روپے کا نقصان،ایرانی این پی پی او کی جانب سے بار بار اعتراضات،درخواست برائے کارروائی،حکومت کب جاگے گی؟
پاکستانی آم کی برآمدی صنعت کے درجنوں فریقین نے وزیرِ اعظم، وزیرِ زراعت، اور اعلیٰ عدالتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ درانی گروپ اور ان کے سرپرست افسران کے خلاف آزاد عدالتی تحقیقات کی جائیں، ڈی پی پی کے اندر اصلاحات کی جائیں اور ٹیکنیکل ماہرین کو قیادت دی جائے،آم کی برآمدات کو شفاف، منصفانہ اور مسابقتی بنایا جائے؛ کسی بھی گروپ کو آم جیسے قومی اثاثے پر اجارہ داری قائم کرنے سے روکا جائے۔
کیا حکومت اور عدلیہ اس معاملے پر فوری نوٹس لیں گی؟
یہ سوالات اب صرف صنعت تک محدود نہیں رہے۔ یہ پاکستان کی زرعی معیشت، قانونی شفافیت اور عالمی وقار کا معاملہ بن چکے ہیں۔ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا، تو پاکستان نہ صرف ایک اہم برآمدی موقع کھو دے گا، بلکہ بین الاقوامی منڈی میں اپنے اعتماد کو بھی ختم کرئے گا؟