
ایف آئی اے میں ترقیوں کا عمل، قانونی سوالات جن پر خاموشی ہے
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے حال ہی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے 26 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو گریڈ 18 میں ترقی دے دی گئی ہے۔ تاہم، اس پیش رفت نے ادارے کے اندر پروموشن کے عمل، سنیارٹی، اور شفافیت کے حوالے سے کئی قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ترقی پانے والے بعض افسران ایسے ہیں جو مختلف انکوائریوں کی زد میں ہیں، اس کے باوجود انہیں اگلے گریڈ میں ترقی دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب، ادارے میں طویل عرصے سے تعینات انسپکٹرز اب بھی گریڈ 17 کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے کے منتظر ہیں، مگر ان کی سنیارٹی لسٹ تاحال جاری نہیں ہو سکی۔
یہ وہ قانونی سوالات ہیں جن پر جواب درکار ہے کہ کیا انکوائری کا سامنا کرنے والے افسران کو ترقی دینا سول سروس قوانین اور ضابطوں کے تحت جائز ہے؟۔ کیا بغیر سنیارٹی لسٹ جاری کیے ترقی دینا شفافیت اور مساوی مواقع کے اصول کی خلاف ورزی نہیں؟۔انسپکٹرز کی ترقی میں تاخیر کیا ان کے بنیادی محکمہ جاتی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف نہیں ہے ؟۔کیا مخصوص گروہوں کو فوقیت دینا اور دیگر کو نظرانداز کرنا "امتیازی سلوک” کے زمرے میں آتا ہے؟۔ کیا اس معاملے پر عدالتی کارروائی یا فیڈرل سروس ٹریبونل سے رجوع ممکن ہے؟۔کیا وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام شفافیت اور مساوی سلوک کے آئینی تقاضے پورے کر رہے ہیں؟۔ کیا ترقیوں میں بے ضابطگیوں پر پارلیمانی نگرانی یا عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے؟۔ کیا ترقی نا پانے والے انسپکٹرز کے لیے واحد حل عدالتی دروازہ ہے جیسا کے موجودہ ترقیاں ایک عدالتی حکم کا نتیجہ ہے؟
یاد رہے کہ ماضی میں وفاقی وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے 2002۔03 میں امیگریشن کاؤنٹر پر خواتین کی ترجیح بھرتی کرتے ہوئے انہیں ڈیٹا انٹری آپریٹر کی حیثیت سے تعینات کیا تھا تاہم بعد ازاں ان خواتین کو انوسٹیگیشن کیڈر میں تبدیل کیا گیا اور پھر انہیں اسسٹنٹ سب انسپکٹر ،سب انسپکٹر اور پھر انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی جو انسپکٹرز کی سنیارٹی لسٹ کے اجراء میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔
ایف آئی اے جیسے حساس اور قومی سطح کے ادارے میں ترقیوں کا عمل صرف انتظامی نہیں بلکہ قانونی اور اخلاقی ذمے داری بھی ہے۔ اگر شفافیت اور سنیارٹی کو نظرانداز کیا جائے تو نہ صرف ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ متاثرہ افسران کے آئینی حقوق بھی مجروح ہوتے ہیں۔