
وفاقی دارلحکومت کی سرکاری اراضی کی خرید وفروخت میں فراڈ ، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزڈ ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) اور پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے تین انجنئیرنگ افسران کو ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے گرفتار کرلیا۔۔
ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد کے درج مقدمہ الزام نمبر 24/2025 کے مطابق غلام فاطمہ نامی خاتون کی شکایت پر چار سال قبل انکوائری نمبر174/2024 رجسٹرڈ کی تھی جس میں الزام عائد کیا گیاکہ 2016 اور 2017 میں سرکاری اراضی میں خوردبرد کی گئی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں زمین کے معاوضوں میں سنگین بے ضابطگیوں پر ایک بڑا قدم اٹھا لیا گیا۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے اسلام آباد میں تعینات پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے تین اعلیٰ افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔
مقدمے کی دستاویزات کے مطابق 27 مئی 2025 کو درج کی گئی، جس میں دفعات 109، 409، 420، 468، 471 تعزیراتِ پاکستان کے ساتھ ساتھ پریوینشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) بھی شامل ہے۔
گرفتار ہونے والے افسران معراج افریدی اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر، پاک پی ڈبلیو ڈی، اسلام آباد، محمود عرفان قریشی ، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر، پاک پی ڈبلیو ڈی، اسلام آباد،اور نعیم اختر سب انجینئر، ایف جی ای ایچ اے، اسلام آباد شامل ہیں۔
مقدمے کی دستاویزات کے مطابق موضع تھلہ سیداں (جی-14/3)، اسلام آباد میں واقع سب سیکٹرز جی-14/1، 14/2، 14/3 کے لیے 20 مارچ 2017 کو اراضی حصول ایکٹ 1894 کی دفعہ 11 کے تحت "سپلیمنٹری ایوارڈ آف بلٹ اَپ پراپرٹیز” جاری کیا گیا تھا۔
شکایت گزار غلام فاطمہ زوجہ عبدالرشید (مرحوم) اور ان کے خاندان کے نام 12 بی یو پیز (BUPs) درج تھیں، جو ان 994، 995، 996، 999، 1006، 1007، 997، 998، 1010، 988، 991، 1000 نمبروں پر مشتمل تھیں۔
تحقیقات کے مطابق بی یو پیز نمبر 997، 998، 1010، 988، 991، 994، 995 کے معاوضے اصلی مالکان کو دیے گئے، تاہم بی یو پیز نمبر 1000، 996، 999، 1006، 1007 کے معاوضے نہ صرف اصل مالکان کو بلکہ کچھ پرائیوٹ افراد کو بھی دیے گئے، جنہیں جعلی شریک مالک ظاہر کر کے ایوارڈ میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا۔
ایف آئی اے کے درج مقدمے کی دستاویزات کے مطابق مذکورہ افسران نے ان پرائیوٹ افراد کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے انہیں جان بوجھ کر ایوارڈ میں شامل کیا حالانکہ ان کا زمین یا پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس کے نتیجے میں ان افراد نے نقد رقم اور پلاٹس کی صورت میں ناجائز فائدہ حاصل کیا، جس سے نہ صرف اصل مالکان کو نقصان پہنچا بلکہ قومی خزانے کو بھی شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ایف آئی اے کے درج مقدمے کی دستاویزات کے مطابق اس مقدمے میں عظمی بتول ،سید مہدی،عمران ،اسد بہادر ،دردانہ سمیت ایک درجن کے قریب ملزمان نامزد ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا جا رہا ہے اور امکان ہے کہ اس اسکینڈل میں مزید افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔