
ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن کی مدت مکمل کرنے والے پولیس افسران کی واپسی—قانونی حکم، انتظامی عملداری یا نامعلوم دباؤ؟
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں ڈیپوٹیشن پر تعینات پولیس افسران کی واپسی کے معاملے پر ایک نیا قانونی اور انتظامی بحران جنم لے رہا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایف آئی اے کو عدالتی فیصلے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے قوانین کی روشنی میں ایسے تمام افسران کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو پانچ برس سے زائد عرصہ سے ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم بعض افسران کی واپسی روکنے اور فہرست چھپانے کی اطلاعات اس عمل کو مشکوک بنا رہی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے واضح قوانین کے مطابق، کسی بھی سرکاری افسر کی ڈیپوٹیشن زیادہ سے زیادہ پانچ برس کی مدت پر محیط ہو سکتی ہے، جس میں ابتدائی تین برس کے بعد محکمے کو دو سال کی توسیع کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ پانچ برس مکمل ہونے کے بعد اس افسر کی ایف آئی اے میں تعیناتی غیر قانونی تصور کی جائے گی ہر عمل، فیصلہ یا کارروائی جو وہ افسر کرے گا، اسے ضابطے سے ہٹا ہوا مانا جائے گا متعلقہ محکمے اور وزارت پر ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ ایسے افسران کو فوری طور پر واپس بلائیں۔
یہ اصول 2021 کے ایک عدالتی فیصلے میں بھی واضح طور پر بیان کیے جا چکے ہیں، جس کا حوالہ وزارت داخلہ نے اپنے حالیہ نوٹیفکیشن میں شامل کیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے راجہ رفعت مختار نے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کی روشنی میں فوری کارروائی کرتے ہوئے لیگل ونگ میں تعینات تین افسران کی ڈیپوٹیشن ختم کرتے ہوئے انہیں واپس ان کے اصل محکموں میں بھجوا دیا۔ مگر یہ اقدام بظاہر جزوی ثابت ہوا کیونکہ باقی وہ افسران جو پانچ سال کی حد عبور کر چکے ہیں، تاحال ایف آئی اے میں کلیدی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ان افسران کی فہرست کو وزارت داخلہ کے ساتھ شیئر کرنے میں غیر واضح تاخیر یا ممکنہ مزاحمت دیکھی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق کچھ افسران کی موجودگی اور ان کی واپسی کی مزاحمت اس خدشے کو تقویت دیتی ہے کہ ادارے کے اندر یا باہر سے کسی قسم کا دباؤ موجود ہے جو اس قانونی عمل میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس دباؤ کی نوعیت سیاسی ہے یا بیوروکریسی کے اندرونی تعلقات کا نتیجہ اس پر مکمل خاموشی ہے۔
قانونی ماہرین اس معاملے کو نہایت سنجیدہ قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق عدالتی فیصلے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے قواعد پر عمل درآمد میں تاخیر صرف قانون شکنی نہیں بلکہ ادارہ جاتی میرٹ کے تصور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی افسر پانچ برس کے بعد بھی ڈیپوٹیشن پر موجود ہے تو اس کے تمام اقدامات چیلنج کیے جا سکتے ہیں۔
یہ صورتحال ادارہ جاتی شفافیت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بنتی جا رہی ہے۔ اگر چند افسران کو مخصوص حیثیت یا دباؤ کی بنیاد پر تحفظ دیا گیا تو دیگر محکمے بھی قانون شکنی کو معمول بنا لیں گے،عدالتیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے فیصلے غیر مؤثر ہو جائیں گے،ایف آئی اے کی داخلی ساکھ اور غیر جانبداری پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
ایف آئی اے میں تعینات ڈیپوٹیشن افسران کی واپسی کا معاملہ صرف ایک انتظامی کارروائی نہیں بلکہ قانونی، اخلاقی اور ادارہ جاتی اصولوں کی آزمائش ہے۔ وزارت داخلہ کے واضح احکامات اور عدالتی فیصلوں کے باوجود اگر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا، تو یہ نہ صرف قانون کی توہین ہو گی بلکہ ادارے کی سالمیت پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ جائے گا۔