ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پالیسی کو مکمل طور پر مذاق بنا دیا گیا ہے۔ ادارے کے اندر پی ایس پی افسران نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ایف آئی اے کے لوئر گریڈ افسران سب انسپکٹرز اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی ترقیوں پر 12 برس سے قفل ڈال رکھا ہے۔ دوسری جانب، موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے راجہ رفعت مختار نے ان افسران کی ترقی کے لئے کوششوں کے بجائے پنجاب پولیس سے 42 انسپکٹرز کی خدمات منگوا کر اپنے ہی ادارے کے افسران میں مایوسی پھیلا دی ہے ۔


ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں تعینات پی ایس پی افسران عدالتی کارروائیوں کو حکمِ امتناعی کے پردے میں لٹکانے کی پالیسی پر گامزن ہیں تاکہ ادارے کے مستقل افسران کی آئینی درخواستوں کو برسوں تک دبا کر رکھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے میں ترقیوں کا نظام مکمل طور پر جام ہوچکا ہے اور 2014 سے شروع ہونے والی اپائنٹمنٹ پوسٹنگ ٹرانسفر رولز پر مکمل درآمد رک گیا ہے اور انسپکٹرز سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر ترقی دی جارہی ہے لیکن اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور سب انسپکٹرز کی ترقیاں منجمد ہیں ۔
مزید انکشاف ہوا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کے نوٹیفکیشن میں مدتِ تعیناتی کی شق تک غائب کردی گئی ہے، جبکہ ایسے پولیس افسران موجود ہیں جو قانون کے برخلاف پانچ برس سے زائد ایف آئی اے میں براجمان ہیں۔ حیران کن طور پر ان افسران کے واپس بھیجے جانے کے احکامات جاری ہونے کے باوجود انہیں محکمانہ پشت پناہی حاصل ہے۔

ادھر ڈی جی ایف آئی اے نے روٹیشن پالیسی کے تحت انسپکٹر سے کانسٹیبل تک کے تبادلے صرف 48 گھنٹوں میں مکمل کرنے کا حکم دے کر ادارے میں مزید افراتفری پیدا کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف موجودہ انکوائریوں بلکہ زیرِ سماعت مقدمات کو بھی متاثر کرے گا، کیونکہ ماضی میں بھی 2021 کی روٹیشن پالیسی کے نتیجے میں اہم کیسز تاخیر، شواہد کے ضیاع اور عدالتی پیروی کی ناکامی کا شکار ہوئے تھے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایف آئی اے میں کام کرنے والے سینئر سب انسپکٹرز اور اے ایس آئی حضرات اب بھی اپنی ترقیوں کے منتظر ہیں جبکہ ڈی جی ایف آئی اے بیرونی افسران کو ترجیح دے کر ادارے کے اندرونی ڈھانچے کو عملاً مفلوج بنا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈیپوٹیشن اور روٹیشن پالیسیوں پر اسی طرز سے عمل جاری رہا تو ایف آئی اے کا تفتیشی نظام مکمل طور پر ڈیپوٹیشن افسران کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔