Screenshot_2025_0502_180320

نومولود بچوں کی مبینہ اسمگلنگ میں ملوث این جی او پوپ کے خلاف دو برس سے سست تفتیش کیوں ۔؟ ایف آئی اے اس معاملے کو راز میں کیوں رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے؟

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ خصوصاً نومولود بچوں کی غیر قانونی فروخت اور بیرونِ ملک منتقلی جیسے جرم نے نہ صرف انسانی ہمدردی کے اصولوں بلکہ ملک کے عدالتی و تفتیشی نظام کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
ہیلتھ اورینٹڈ پرینٹیو ایجوکیشن (ہوپ) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے خلاف امریکی قونصل خانہ کراچی نے ستمبر 2023 میں ایف آئی اے کو ایک تحریری شکایت دی جس میں HOPE کی جانب سے 23 بچوں کی خلافِ قانون حوالگی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ہوپ این جی او 1997 میں سندھ ویلفیئر بورڈ میں رجسٹر ہوئی،لیکن کبھی بھی یتیم خانے یا بچوں کو گود دینے والے ادارے کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوئی۔چائلڈ پروٹیکشن یونٹ یا کسی تھانے میں کسی بچے کی تحویل کے سلسلے میں قانونی دستاویز موجود نہیں۔سندھ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2011 کے مطابق ہر بچے کی سرکاری تحویل، فلاح، اور تحفظ ریاستی نگرانی میں ہونا لازم ہے۔غیر رجسٹرڈ ادارے کی جانب سے بچوں کو کسی کے حوالے کرنا قابلِ گرفتاری جرم ہے۔

مجرمانہ تاخیر سے ایف آئی اے کی تفتیشی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔انکوائری نمبر 771/2023
ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی میں باقاعدہ رجسٹر ہوئی۔
لیکن دو سال گزرنے کے باوجود نہ کوئی گرفتاری، نہ کسی ذمہ دار کو شاملِ تفتیش کیا گیا۔انکوائری افسر چوہدری بلال نے “شواہد کی کمی” کا جواز پیش کر کے فائل بند کرنے کی سفارش کر دی۔ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے نہ ہی ان افسران سے باز پرس کی، نہ داخلی انکوائری شروع کی۔

کیا یہ محض نااہلی ہے یا دانستہ ملی بھگت ہے؟فراڈ پرہوونشن یونٹ (ایف پی یو) کی جانب سے بچوں کی حوالگی کے لئے ہوپ کے مکمل کوائف اور شواہد اور ویزا درخواستوں کے ریکارڈ فراہم کیے۔امریکی ڈپلومیٹک سیکیورٹی سروس کے ایجنٹ اسکاٹ میلاسیکا کو رابطہ افسر نامزد کیا گیا۔

امریکی قونصل خانہ نے تحریری تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستانی تفتیشی ادارے فراہم کردہ شواہد پر کارروائی میں ناکام رہے ہیں، جو سنگین نوعیت کی سفارتی تشویش کا باعث ہے۔

ہوپ کی چیئرپرسن ڈاکٹر مبینہ قاسم آگبوٹ والا نے دعویٰ کیا کہ: تمام بچے قانونی ذرائع سے حاصل کیے گئے اور عدالت کی منظوری سے حوالہ کیے گئے۔

لیکن تفتیش سے معلوم ہوا کہ بیشتر بچوں کا دعویٰ شدہ "ماخذ کلینک” غیر رجسٹرڈ یا غائب ہے۔کسی بچے کی FIR، تھانے کی انٹری، یا اسپتال سے بازیابی کا ریکارڈ موجود نہیں۔

گارڈین ایکٹ 1890 کے تحت عدالتوں سے حاصل کیے گئے آرڈر صرف HOPE کی خودساختہ دستاویزات پر منحصر تھے۔

صارم برنی کی گرفتاری، مگر ہوپ محفوظ؟صارم برنی کو ہوپ کے کیس کے ساتھ جوڑا گیا۔صارم برنی کو ایف آئی اے نے کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا، لیکن HOPE کے خلاف کوئی براہِ راست کارروائی نہ ہوئی۔انکوائری افسر کے تبادلے کے ساتھ ہی فائلیں بھی “منتقل” ہو گئیں اور کارروائی معطل رہی۔

قانونی ماہرین کے مطابق اگر یہ کیس بین الاقوامی سطح پر عدالت میں پیش ہوا تو پاکستان کو نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی رسوائی کا سامنا ہوگا۔ عدالت میں تاخیر اور شواہد کے ناقص انتظام سے تمام ملزمان کو ریلیف مل سکتا ہے۔

قانون ماہرین کے مطابق اعلیٰ عدالتی کمیشن سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر عدالتی انکوائری تشکیل دے۔
ایف آئی اے کی داخلی تفتیش نااہل افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو۔
HOPE کی رجسٹری منسوخی ادارے کی تمام سرگرمیاں معطل کر کے، غیر جانب دار آڈٹ کروایا جائے۔
بچوں کی بازیابی اور تحفظ تمام بچوں کا سراغ لگا کر انہیں حکومتی تحویل میں لے کر تحفظ دیا جائے۔
بین الاقوامی اشتراک امریکی اداروں سے تعاون کر کے تفتیش کو شفاف بنایا جائے۔

یہ کیس صرف ایک این جی او کی بے ضابطگی یا ایف آئی اے کی سستی کا معاملہ نہیں، بلکہ پاکستان کے عدالتی اور اخلاقی ضمیر کی آزمائش ہے۔ نومولود بچوں کی فروخت کوئی کاروبار نہیں، انسانیت کی قبر ہے۔
اگر ادارے اب بھی خاموش رہے تو یہ جرم ہماری اجتماعی ناکامی کی علامت بن جائے گا۔