
صارم برنی کی گرفتاری
صارم برنی ٹرسٹ کیس ایف آئی اے کی تحقیقات تین متاثرہ بچیوں کے دستاویزات میں تبدیلی تک ہی محدود ہوگئی، ایف آئی اے تاحال فاطمہ جنت زہرہ، فاطمہ سارہ زہرہ (شیزا) کے والدین کو تلاش کرنے میں ناکام ہے۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)سے ملنے والے ریکارڈ میں جو رہائشی پتہ واصف شبیر کے اپنے اور اس کے دیگر عزیز کے ملے ان پر بھی کوئی نہیں ملا ہے ۔
ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل کراچی میں 5 جون کو درج ہونے والے مقدمہ الزام نمبر 126/24میں صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ پر ٹرانسپورٹ ان پرسن اور جعل سازی کی دفعات کے تحت بچوں کی اسمگلنگ اور دستاویزات میں تبدیلی کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے میں درج ہونے والا مقدمہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں ایف آئی اے نے امریکی قونصلیٹ کی جانب سے ڈائریکٹر ایف آئی اے کے نام لکھے گئے خط کا حوالہ دیا ہے جسے ایف آئی اے نے کمپلین میں تبدیل کیا ہے اس کے مطابق صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ نے 6 سالہ جنت زہرہ اور چار سالہ فاطمہ سارہ زہرہ اور حیا ناصر نور والا کے امریکی ویزہ کے لئے دستاویزات دئیے ہیں ان دستاویزات میں تضاد ہے اور اسی بنیاد پر امریکہ بھیجے جانے والے بچوں فرقان خان، ارون لاکھانی،عائشہ نور ،امیرا عمر ، زویا حسن صدیقی اور مریم انور کے دستاویزات کی بھی چھان بین ضروری ہے
یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے جن تین بچیوں جنت زہرہ ،فاطمہ سارا اور حیاء ناصر نور والا کا زکر ہے وہ تینوں بچیاں اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جن میں دو بچیاں فاطمہ اور جنت صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم میں اور حیاء اس خاندان کے پاس ہے جس نے اسے ٹرسٹ سے گود میں لیا ہے ۔
ایف آئی اے کے مقدمے کے دوسرے حصے میں ان بچیوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ واصف شبیر ، ڈاکٹر مدیحہ سے متعلق حصہ بھی شامل تفتیش رکھا گیا یے ۔
اس ضمن میں صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ کا موقف ہے کہ ایف آئی اے نے بچیوں کو بیرون ملک فروخت کرنے کا الزام عائد کیا ہے اس میں ہم عدالت کو آگاہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ میں فیملی کنیکشن نام سے ایجنسی ہے جو امریکہ میں خاندان بچے مختلف والدین یا ٹرسٹ سے گود لیتے ہیں انکی جانب پڑتال جو ایک برس سے زائد کا عمل ہے اس کی۔
جان بین کا عمل مکمل کر کے ان کے حوالے کیا جاتا ہے جس کی مد میں وہ 9 ہزار امریکی ڈالر فیس میں وصول کرتے ہیں اور اس میں 5 ہزار امریکی ڈالر سیکورٹی کی مد میں ہوتا ہے ۔
صارم برنی ٹرسٹ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیملی کنیکشن کی انتظامیہ کے خلاف امریکہ میں کارروائی کی کوئی اطلاع موجود نہیں ہے اور وہ ایجنسی ہم سے اب بھی رابطے میں ہے جہاں تک بچیوں کے نام تبدیلی کا معاملہ ہے جن والدین نے بچیاں ہمارے حوالے کی ہیں اور انہوں نے جو نام ہمیں بتائے وہ ہی نام ان بچیوں کے ہمارے دستاویزات میں موجود ہیں جب کہ جو والدین ان بچیوں کو گود لیتے ہیں تو وہ اپنی پسند کا کوئی بھی نام رکھیں ہمیں اس ہر اعتراض نہیں ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے مقدمے میں جس ڈاکٹر مدیحہ کا زکر ہے اس کے خلاف پولیس میں صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ کی شکایت پر کارروائی ہوئی اور اس کے خلاف اب بھی مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے سے جب عدالت میں پوچھا گیا کہ 26 بچوں کی بیرون ملک اسمگلنگ کا کوئی ثبوت آپ کے پاس موجود ہے تو ایف آئی اے کی ٹیم نے مقدمے میں جن بچے اور بچیوں کا زکر ہے یہ تحقیقات اس تک ہی محدود ہے ۔
صارم برنی انٹرنیشنل ٹرسٹ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صارم برنی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب عدالت میں دیں گے ۔
دوسری جانب ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے اس کیس میں بعض دستاویزات حساس نوعیت کی ہیں اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور شواہد عدالت میں جمع کروائے جائیں گے ، ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچیوں کے والدین میں سے کوئی بھی مل گیا ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے گا تاکہ تصدیق ہوسکے ۔
ایف آئی اے میں مقدمے کے اندراج کے بعد تینوں بچیوں فاطمہ زہرا،سارا اور حیاء کا امریکہ امیگریشن کا عمل رک گیا یے اور عدالتی احکامات کی روشنی میں ہی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔