fbr-5

ایف بی آر کا من پسند افسران میں قومی خزانے سے کروڑوں روپے انعامی رقم کے نام پر تقسیم، انعامی رقم حاصل کرنے والے بعض افسران ایڈمن پول میں بھی شامل،سائبر کرائم سے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ، ایف بی آر کا درخواست پر ردعمل سے گریز۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعلی افسران کو انعامی رقم کی تقسیم پر نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے، انعامی رقم تقسیم میں بنائی جانے والی کٹیگری میں بھی آخری لمحات میں تبدیلی کر کے من پسند افسران کو نوازا گیا، ایف بی آر کے ماتحت کسٹم اور ان لینڈ ریونیو کے افسران بھی آمنے سامنے آگئے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کی افسران میں انعامی رقم کی تقسیم کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے اور قومی خزانے کو نقصان پہچانے کے مترادف ہے ماضی میں ایف بی آر میں ریوارڈ سسٹم یا انعامی رقم کی تقسیم کی پالیسی آتی رہی ہے لیکن اس پالیسی پر کسی کو اعتراض نہیں رہا لیکن یہ پالیسی خالص گریڈ 17 سے اوپر کے وہ من پسند افسران ہیں جنہیں نوازا گیا اور ایک ایک افسر کو 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک کی رقم تقسیم کی گئی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی خزانے سے ملنے والی رقم کی تقسیم مستقبل قریب میں کسی بڑے مالی اسکینڈل کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔۔۔؟

ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں آئین اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے نتیجے میں یہ اقدام قومی احتساب بیورو ،ایف آئی اے میں مبینہ طور پر تحقیقات کی شکل اختیار کرسکتا ہے جس کی زد میں وزیر اعظم ،وزارت خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی آسکتے ہیں ۔

اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اور ٹیکس ماہر وحید شہزاد بٹ نے ایف بی آر کو لکھی گئی تفصیلی درخواست میں ٹرانسفارمیشن پلان 2024 کے تحت مخصوص کیڈر افسران کو بونس کی ادائیگی کے طریقے کار پر سوالات اٹھائے ہیں ۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انعامات کی تقسیم میں پئیر ریٹنگ کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جس میں افسران ایک دوسرے کو گریڈ دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہیں چھ ماہ سے لے کر دو برس کی اضافی تنخواہ کے برابر بونس کی ادائیگی کی جارہی ہے ۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ کئی افسران کے گریڈ مبینہ طور پر چیئرمین ایف بی آر نے اپنی بنائی ہوئی من پسند افسران پر مشتمل کمیٹی کے زریعے تبدیل بھی کروائے گئے جو اس عمل میں اور بھی مشکوک کردار ہے ۔

واضح رہے کہ ایف بی آر کہ جانب سے جن افسران کو ریوارڈ سسٹم کے تحت نوازا گیا یے ان افسران کی فہرست کو مخفی رکھا گیا ہے اور زرائع کا کہنا ہے کہ ریوارڈ سسٹم کے لئے بنائی گئی اے کٹیگری سے سی کٹیگری میں نوازے جانے والے افسران میں بعض ممبر ،چیف کلکٹر ،ڈائریکٹرز کی کٹیگری کو تبدیل کیا گیا ہے جو اس نظام کو مزید مشکوک بناتا ہے ۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس اقدام سے آرٹیکل 19A کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں PLD 2016 SC 808( مصطفی ایمپیکس کیس) کی بھی نفی کی گئی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی اس معاملے کی فرانزک آڈٹ کرئے ،اڈیٹر جنرل اور اکاوئنٹ جنرل آف پاکستان انعامی رقوم کی تقسیم فوری طور پر روکیں۔زرائع کا کہنا ہے کہ ریوارڈ سسٹم کے تحت جن افسران کو نوازا گیا ان افسران میں سے کچھ افسران نے تاحال رقم وصول نہیں کی ہے ان افسران کو خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں اگر کوئی تحقیقات ہوئی تو اس کی زد میں نا آجائیں اور یہ افسران وہ ہیں جن کی کٹیگری کو تبدیل کر کے انہیں اوپر سے نچلے درجے میں لایا گیا یے۔

اس ضمن میں چیئرمین ایف بی آر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ان سے ایسے افسران کی فہرست طلب کی گئی جن افسران کا نام ریوارڈ سسٹم کے زریعے آیا یے تاہم ایف بی آر کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا یے ۔

دوسری جانب ٹیکس ماہر و ایڈوکیٹ وحید شہزاد بٹ کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے ان کی تحریری درخواست پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نا ہی کوئی ایسی فہرست اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہے جس میں عام افراد کو یہ معلوم ہوسکے کہ ریوارڈ کے نام پر کن افسران میں کس کٹیگری کے تحت انعامی رقم تقسیم کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے جواب کا منتظر ہوں جس کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ان لینڈ ریونیو اور پاکستان کسٹمز کے گریڈ 17 سے اوپر من پسند افسران میں ٹیکس دہندگان کا پیسہ غیر قانونی طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے جو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کہ دفعہ 9 کے تحت قابل گرفت ہے کیونکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

ٹیکس ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم افسران کی کارکردگی کو بڑھانے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا لیکن اس میں ایسے افسران کو بھی ریوارڈ دیا گیا جسے خود ایف بی آر نے ایڈمن پول کا حصہ بنایا اور کرپشن کے الزامات کے باوجود ایسے افسران کو انعامی رقم کی ادائیگی ہوئی تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان افسران کی کارکردگی ہے۔؟؟

ایف بی آر ملازمین کا کہنا ہے کہ گریڈ 16 تک کے ملازمین ایک ماہ سے زائد ہوگیا ہے ایف بی آر اسلام آباد ،لاہور ،روالپنڈی،کراچی ،ایبٹ آباد میں سراپا احتجاج ہے اور ان کے الاوئنسسز ایف بی آر نے بلکل بند کردئیے ہیں جبکہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افسران ہر مراعات سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں ۔یہ اقربا پروری، زاتی پسند ناپسند کی روشن مثال ہے۔

قانونی و ٹیکس ماہرین اور سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ ایف بی آر کی انعامی اسکیم کے ڈھانچے اور شفافیت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔