Screenshot_2025_0502_180320

کراچی سے بچوں کی مبینہ اسمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک پر شروع ہونے والی مقدمے کی تفتیش اور ایک انکوائری ایک سال بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں، جس پر امریکی حکام نے نا صرف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کی کارکردگی پر براہ راست سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔

این جی اوز کے ذریعے بیرون ملک بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث صارم برنی ٹرسٹ ہو یا (ہوپ) نامی تنظیم دونوں انکوائریوں کی تفتیش سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔؟

صارم برنی کی گرفتاری کا پس منظر

چھ جون 2024 کو جب صارم برنی امریکہ سے وطن واپس پہنچے تو ایف آئی اے نے کراچی ائیرپورٹ پر انہیں گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی کی بنیاد امریکی سفارتخانے کی وہ ای میل بنی جس میں پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کو مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر بچوں کی گود لینے میں صارم برنی ٹرسٹ کے کردار پر شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔

یہ ای میل ایف آئی اے کو اس وقت موصول ہوئی جب امریکی حکام کے پاس 18 ایسے کیسز کا ریکارڈ آیا جن میں ایک ہی تنظیم کے ذریعے بچوں کو دو سال کے دوران گود لینے میں مدد فراہم کی گئی۔ تین بچیوں کے کیسز میں بچوں کے نام تبدیل کیے گئے اور انھیں جھوٹا یتیم ظاہر کیا گیا۔

عدالتی کارروائی اور تفتیشی تاخیر

مقدمہ درج ہونے کے بعد صارم برنی نے ضمانت کے لیے کوششیں کیں لیکن ابتدائی طور پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج شرقی اور پھر سندھ ہائی کورٹ سے ان کی درخواستیں مسترد ہوئیں۔

اب ان کے وکلاء دوبارہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہوئے اور ایف آئی اے کے تفتیشی افسر پر سنگین الزامات عائد کیے کہ:
تفتیشی افسر پیشی پر نہیں آتا۔
فائل بھول جاتا ہے یا تیاری کے بغیر عدالت میں حاضر ہوتا ہے۔
جان بوجھ کر شواہد عدالت میں پیش نہیں کیے جا رہے۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل کو محض دباؤ میں رکھنے کے لیے جیل میں قید رکھا گیا ہے۔

تفتیشی افسر کا تبادلہ اور فائل کا سفر

دلچسپ اور باعث تشویش امر یہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر چوہدری بلال کو دورانِ تفتیش ہی ہیومن ٹریفکنگ سرکل سے کمرشل بینکنگ سرکل میں تبادلہ کر دیا گیا۔ حیران کن طور پر کیس کی مکمل فائل وہ اپنے ساتھ لے گئے، جو ایک غیر معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔ قانونی ماہرین اسے ضابطے کے برخلاف قرار دے رہے ہیں۔

یہی چوہدری بلال اس سے قبل آڈیو نک کمپنی کے خلاف انکوائری میں بھی متنازع کردار ادا کر چکے ہیں، جسے بعد ازاں بند کر دیا گیا۔

قانونی دائرہ اختیار کا نیا تنازع

تفتیشی افسر کا نیا مؤقف یہ ہے کہ "ٹریفکنگ ان پرسن (TIP)” قانون میں تبدیلی کے بعد یہ کیس جوڈیشل مجسٹریٹ کے دائرے اختیار میں نہیں آتا۔ تاہم قانونی ماہرین نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم مارچ 2025 میں ہوئی ہے، جب کہ صارم برنی کا کیس 2024 کا ہے، اس لیے یہ بہانہ مزید تاخیر کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

اگر ڈسٹرکٹ جج کی جانب سے یہ فیصلہ آتا ہے کہ کیس جوڈیشل مجسٹریٹ سنیں گے تو تفتیشی افسر کا موجودہ مؤقف خود بخود بے وزن ہو جائے گا۔

تفتیشی خلا اور گمشدہ شواہد

کیس میں چارچ شیٹ تاحال جمع نہیں ہوئی۔

بچوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ اب تک عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔

جن خواتین نے بچوں کو صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کیا، ان کی گرفتاری یا تفتیش کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔

ہوپ این جی او: دوسرا خاموش محاذ

ہوپ نامی این جی او کے خلاف امریکی قونصلیٹ کی شکایت پر ایک اور متوازی انکوائری شروع کی گئی ،جس میں الزام ہے کہ جعلی دستاویزات کے ذریعے بچوں کو یورپ اور امریکہ میں فروخت کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہے لیکن اسی تفتیشی افسر کی جانب سے انکوائری کو بند کرنے کی تجویز دی گئی جس پر زونل بورڈ نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔یاد رہے کہ یہ این جی او ایک سابقہ بیوروکریٹ ڈاکٹر خاتون کی زیر سرپرستی چل رہی ہے۔

عالمی تحفظات، مقامی کمزوریاں

یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ اگر ایف آئی اے کی موجودہ روش برقرار رہی تو پاکستان میں سرگرم ایک مبینہ بین الاقوامی اسمگلنگ نیٹ ورک عدالت میں بے نقاب ہونے سے رہ جائے گا۔ قانونی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر تفتیش کا یہی انداز رہا تو صارم برنی کو ریلیف ملنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور وہ بھی شواہد کی کمی یا عدالتی کارروائی کے دوران سست روی کا مظاہرہ کرنے سے بھی فائدہ ملزمان کو مل سکتا ہے۔

کیا پاکستانی ادارے بچوں کی غیر قانونی فروخت جیسے حساس اور عالمی سطح پر شرمناک جرم کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ یا پھر ادارہ جاتی تاخیر اور قانونی موشگافیوں کے باعث یہ کیس بھی دیگر مقدمات کی طرح سرد خانے کی نذر ہو جائے گا؟

مزید سوال یہ ہے کہ کیا امریکی سفارتخانے کے خدشات پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد کو متزلزل کر دیں گے؟ وقت ان سوالات کا جواب دے گا،مگر اب بھی وقت ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے بچوں کے تحفظ کے لیے، اور اپنی ساکھ کے لیے۔