Screenshot_2025_0502_180320

کیا ایف آئی اے خود اپنے اندر پنپتی بدعنوانی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے؟

ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاہد علی مئیو کو ارمغان کال سینٹرز کیس میں مبینہ رشوت خوری کے الزام پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ برطرفی کئی اہم سوالات کو جنم دے رہی ہےکہ جب شاہد علی مئیو پر رشوت کے سنگین الزامات موجود تھے تو انہیں اربوں روپے کے حساس فراڈ کیس کی تفتیش کیوں سونپی گئی؟

یہ کوئی خفیہ بات نہیں تھی کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاہد علی مئیو پر پہلے ہی بدعنوانی کے الزامات تھے، یہاں تک کہ ایک وفاقی سیکرٹری کی رپورٹ بھی ان کے خلاف تیار ہو چکی تھی۔ ایسے میں ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر مردان علی شاہ نے آخر کیوں انہیں کراچی کے بڑے کال سینٹر فراڈ کیس کی تفتیش سونپی؟

کیا یہ فیصلہ محض غفلت کا نتیجہ تھا یا جان بوجھ کر اہم ثبوتوں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی؟

کیا مصطفیٰ عامر قتل کیس اور کال سینٹر فراڈ کی تفتیش کو کمزور کرنے کی کوئی مربوط کوشش کی جا رہی تھی؟

رواں سال کے آغاز میں کراچی میں قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کا کیس سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر خاصا نمایاں رہا۔ اطلاعات کے مطابق کیس کو کمزور کرنے کے لیے کراچی پولیس کے کچھ اہلکاروں پر بھی الزامات سامنے آئے تھے۔ کیا ایف آئی اے کے کچھ افسران بھی اس "کمزوری” کی سازش کا حصہ تھے؟

کیا ایف آئی اے نے جلد بازی میں کال سینٹرز کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی پوزیشن کمزور کی؟

قانونی ماہرین کے مطابق ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ ٹیم نے درخشاں تھانے کے ایک قتل مقدمے کو بنیاد بنا کر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کر لیا اگر پہلے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو غیر قانونی کاروبار پر مقدمہ درج کرنے دیا جاتا، تو ثبوتوں کی قانونی حیثیت زیادہ مضبوط ہوتی۔
تو کیا یہ جلد بازی دانستہ تھی؟

کیا ایف آئی اے کے اندرونی حلقے خود کال سینٹرز سے جُڑے افراد سے "براہِ راست رابطوں” میں تھے؟

تحقیقات کے دوران جب 13 خواتین اور 23 مرد ایجنٹوں کو طلب کیا گیا تو ان میں سے 6 افراد کے والدین سندھ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر تھے۔ کیا یہ بااثر تعلقات ان ایجنٹوں کو بچانے میں کامیاب رہے؟
کیا باقی ایجنٹوں کے ذریعے براہِ راست رشوت کے معاملات طے ہوئے؟ اطلاعات کے مطابق شاہد علی مئیو پر ڈیڑھ کروڑ روپے کی مبینہ رشوت کا الزام بھی عائد ہوا۔

کیا ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل کی برہمی محض ایک افسر کی برطرفی تک محدود رہے گی؟
موجودہ ڈی جی ایف آئی اے راجہ رفعت حسین مختیار نے مبینہ رشوت کی انکوائری کے بعد نہ صرف پیسے کی واپسی کروائی بلکہ مئیو کی برطرفی کی منظوری بھی دے دی۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟
کیا ان تمام کیسز کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا جن کی تفتیش شاہد علی مئیو کے سپرد تھی؟
کیا انہیں کراچی تعینات کروانے والے افسران پر بھی انکوائری ہوگی؟
کیا ادارے کے اندر ایسی کسی بھی سفارش لابی کی چھان بین ہوگی؟

آخر کیس خراب کرنے کی سزا کون پائے گا؟۔اہم ترین سوال یہی ہے کہ صرف ایک افسر کی قربانی سے ادارہ خود کو پاک صاف کہلانے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یا پھر ادارے کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ایک فرد کا مسئلہ نہیں، یہ ایک نظام کی ناکامی ہے۔

کیا ڈی جی ایف آئی اے اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دیں گے؟
کیا اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی برطرفی کے بعد ایف آئی اے میں ماضی کی انکوائریوں کا آڈٹ ہوگا؟
کیا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اس معاملے پر از خود نوٹس لے گی؟
کیا ادارے کے اندر احتساب کی نئی روایت قائم ہوگی یا یہ بھی ماضی کی طرح فائلوں میں دفن ہو جائے گا؟
عوامی اعتماد کی بحالی کیسے ہوگی؟

عوام اور میڈیا کا اعتماد تبھی بحال ہوگا جب شفاف اور آزاد انکوائری ہو۔فائلیں اور شواہد سامنے لائے جائیں۔سفارش کلچر کو بے نقاب کیا جائے۔

کیا واقعی شاہد علی مئیو کا معاملہ صرف ایک فرد کا قصہ ہے؟ یا یہ ایف آئی اے کے نظام میں چھپی بدعنوانی کی ایک مثال ہے؟
شاید اس سوال کا جواب ہم سب کو مل کر تلاش کرنا ہوگا۔