Screenshot_2025_0701_120733

وفاق کے زیرانتظام ادارہ کمشنریٹ افغان ریفیوجیز
خیبرپختونخواہ مبینہ طور پر مالی بدعنوانیوں، غیرقانونی تعیناتیوں اور اعلیٰ افسران کی سرپرستی میں جاری بے ضابطگیوں کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں نہ صرف قومی خزانے کو ہر ماہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے بلکہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل پشاور کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں بھی مسلسل رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق، کمشنریٹ کے اندر اعلیٰ سطح پر کی گئی غیرقانونی تعیناتیوں اور کرپشن کے کئی معاملات پر ایف آئی اے نے باقاعدہ انکوائریاں شروع کیں، مگر متعلقہ افسران کی جانب سے ریکارڈ کی فراہمی میں عدم تعاون کے باعث کسی بھی کیس کو اب تک مقدمے میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔

بدر منیر کا متنازعہ کردار

تحقیقات کے مرکز میں بدر منیر ولد فضل اللہ نامی افسر ہیں، جنہیں 2023 میں نگراں حکومت کے دوران تمام قانونی ضوابط اور پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گریڈ 17 کے اہم عہدے پراجیکٹ ڈائریکٹر کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونٹ چارسدہ پر تعینات کیا گیا۔ ان پر ماضی میں ایک خاتون کے مبینہ ریپ کا مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے، جب وہ خیبرپختونخواہ کے محکمہ صحت میں تعینات تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے شخص کو بغیر انٹرویو، بغیر اشتہار اور بغیر کسی سکیورٹی کلیئرنس کے تعینات کرنا قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں؟
کیا صوبائی محکمہ صحت سے ڈیپوٹیشن پر آ کر اس طرح کی تعیناتی ممکن ہے؟
الیکشن کمیشن، وزارت سیفران یا چیف سیکرٹری کی منظوری کہاں ہے؟

مزید یہ کہ ان کی تعیناتی کے دوران کسی قسم کا عوامی اشتہار جاری نہیں کیا گیا، نہ ہی پولیس کلیئرنس یا انٹرویو کا کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود ہے۔ ان تمام تفصیلات کی طلبی کے باوجود کمشنریٹ کے افسران ایف آئی اے کے سامنے ریکارڈ پیش کرنے سے انکاری ہیں۔

کمشنریٹ افغان ریفیوجیزکے تحت چلنے والے پروجیکٹس میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ امدادی فنڈز اور ڈونر ایجنسیوں کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کس کے اکاؤنٹس میں جا رہا ہے؟ کوئی جواب نہیں۔قانونی ماہرین کے مطابق نگراں حکومت میں تقرری الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور اگر کسی سرکاری افسر پر ریپ کا مقدمہ درج ہو، تو اس کا سکیورٹی کلیئرنس ممکن ہی نہیں۔ ایسی تعیناتی نہ صرف سروس رولز بلکہ پاکستان پینل کوڈ کی بھی خلاف ورزی ہے۔”

حاجرہ سرور کی مبینہ فراری اور ادارہ جاتی سرپرستی

اسی طرح ایک اور سینئر افسرہ حاجرہ سرور، جن کے خلاف مبینہ طور پر سنگین الزامات زیر تفتیش تھے، کو ملک سے فرار ہونے میں سہولت فراہم کی گئی۔ ان کی روانگی کے بعد ہی ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا، جو تاخیری حربوں کا واضح ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔

ایف آئی اے بےبس یا مجبور؟

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل پشاور نے بدر منیر کے خلاف انکوائری نمبر 295/2024 میں تین بار باقاعدہ نوٹسز جاری کیے، جن میں تعیناتی سے متعلق مکمل ریکارڈ، نگران حکومت سے این او سی، انٹرویو کی تفصیلات، اور دیگر قانونی لوازمات مانگے گئے۔ لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ایف آئی اے کی روایت رہی ہے کہ تین نوٹسز کے بعد مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے، مگر اس کیس میں ادارہ غیرمعمولی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، جس سے شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

1981 میں کمشنریٹ افغان ریفیوجیز کاا ادارہ وجود میں آیا جس کا مقصد انسانی خدمت تھا، مگر موجودہ حالات میں یہ ادارہ خود ایک بدعنوان نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے، جسے وفاقی سرپرستی میں چلنے کا فائدہ حاصل ہے۔

مطالبہ تحقیقات اور عدالتی مداخلت کا

قانونی ماہرین اور سماجی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر ادارہ جاتی بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو اس کیس میں فوری عدالتی مداخلت، پارلیمانی نگرانی اور ایف آئی اے کو آزادانہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔

ملک میں قانون کی حکمرانی کے دعوے کس حد تک سچ ہیں؟ یہ سوال اُس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب ایک وفاقی ادارہ کمشنریٹ افغان ریفیوجیز نہ صرف مالی اور انتظامی بدعنوانیوں میں ملوث پایا جائے، بلکہ ان کے خلاف جاری تحقیقات کو بھی مسلسل تاخیر کا شکار بنایا جائے۔

کیا یہ ریاستی اداروں کی کمزوری ہے یا اثرورسوخ رکھنے والوں کا تسلط؟
ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل پشاور کی ناکامی کے پیچھے آخر کون سے ہاتھ کام کر رہے ہیں؟
اس کا جواب دینے کے لئے نا ہی ایف آئی اے تیار ہے اور نا ہی مسلسل رابطہ کرنے پر واپڈا سے ڈیپوٹیشن پر اآنے والے شکیل صافی جو کسی بھی سوال کا جواب دیبت سے قاصر رہے۔

آخر کب تک؟
کیا ایک وفاقی ادارہ قانون سے بالاتر ہو چکا ہے؟
کیا ایف آئی اے کا اختیار صرف کمزور حلقوں تک محدود ہے؟
اور اگر ریاستی ادارے خود قانون شکنی میں شریک ہوں تو عوام انصاف کہاں ڈھونڈیں؟

کمشنریٹ افغان ریفیوجیزمیں جاری بے ضابطگیاں، غیر قانونی تعیناتیاں اور مجرمانہ غفلت صرف ایک محکمے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی اداروں کی کارکردگی، شفافیت اور انصاف پسندی پر ایک کھلا سوالیہ نشان ہیں۔