
وفاق کے 2 اہم اداروں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسران کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔
ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل لاہور زون کی جانب سے ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو کو انکوائری میں نوٹس جاری کرنے کے معاملے میں شروع ہونے والے تنازعے میں ایف بی آر افسران کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے اپنی بیگم کے بھائی کی کمپنی کا ریفنڈ غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ایف بی آر لاہور زون نے ادا کرنے سے انکار کیا اور اسی وجہ سے ایف آئی اے نے ایک پرانی انکوائری میں ممبر ان لینڈ ریونیو کو نوٹس جاری کیا۔
ڈی جی ایف آئی اے نے موقف اختیار کیا ہے کہ میرا کوئی سالا نہیں ہے۔
ایف بی آر نے ملک بھر میں ایف آئی اے افسران اور ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کے اپنے اور اہل خانہ کے اثاثوں کی 15 دن میں چھان بین کر کے انکوائریوں میں تبدیل کریں۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ندیم اختر نے شکایت کنندہ شبیر احمد ولد میاں رحمت علی کی درخواست پر انکوائری نمبر77/2024 میں ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن بادشاہ خان وزیر کو 23 جولائی کو نوٹس جاری کیا اور ممبر ان لینڈ ریونیو سے گزشتہ 5 برس کا ایف بی آر لاہور زون سے کمپنیوں کو جاری ہونے والے ریفنڈز کا ریکارڈ طلب کیا گیا اور ساتھ ایف بی آر کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں اس نوٹس کے اجراء کے بعد ایف آئی اے اور ایف بی آر کے افسران کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔
ایف بی آر نے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن کو جاری ہونے والے نوٹس پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے جس پر عدالت نے حکم امتناع جاری کیا ہے ۔
ایف بی آر نے اپنی آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ایف بی آر میں احتساب کا مضبوط نظام موجود ہے اور ایف آئی اے کو اختیار نہیں کہ وہ کمپنیوں کو جاری ریفنڈ پر تحقیقات کرسکے ۔
دوسری جانب ایف بی آر کے زرائع کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اسحاق جہانگیر کے بیگم کے بھائی (سالے) کی لاہور میں کمپنی ہے جس نے ایف بی آر لارجر ٹیکس آفس لاہور زون میں ریفنڈ کلیم کیا ہے اس ریفنڈ کو ایف بی آر لاہور نے مسترد کردیا ہے کیونکہ وہ ریفنڈ اس کمپنی کا بنتا نہیں ہے اور اس کے بعد ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل لاہور نے ایک پرانی انکوائری میں ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن بادشاہ خان وزیر کو نوٹس جاری کیا ہے جس کے لئے ایف بی آر نے عدالت سے رجوع کیا اور ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
اس ضمن میں ویب سائٹ ( تحقیقات۔کوم)نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اسحاق جہانگیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ایف آئی اے لاہور نے نوٹس کسی انکوائری پر جاری کیا ہوگا جس کا علم نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا کوئی سالا نہیں ہے اس لئے کمپنی بھی کوئی ایسی نہیں ہے۔
دوسری جانب چئیرمین ایف بی آر آفس سے ملک بھر میں ایف بی آر افسران کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی اے کے افسران اور پولیس سے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں جانے والے افسران ان کے اہل خانہ کے اثاثوں ،بینک کھاتوں کی تفصیلات 15 دن میں اکھٹی کر کے انکوائریوں کا آغاز کریں اور ایف آئی اے افسران کے غیر قانونی اثاثوں کی تفصیلات کو مرحلہ وار جاری کریں۔