
ٹیکس چوری اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایف بی آر کے ڈیٹا بیس میں پینشن اکاوئنٹس کا ڈیٹا اپ لوڈ کیا جانے لگا.
ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل آڈٹ کے ایک مقدمے میں 66 ارب کی ٹرانزیکشن کو جن اکائونٹس میں ظاہر کیا گیا وہ رقم منتقل ہی نہیں ہوئی۔
سیلز ٹیکس ایکٹ کی سیکشن 73 پر عمل درآمد کے لئے جعلی منی ٹریل فراہم کی گئی ہیں، بے نامی کمپنیوں اور بے نامی اکائونٹس کی طرز پر نیا اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل آڈٹ سدرن زون ان لینڈ ریونیو ایف بی آر نے جنید امپکس اور ٹریڈ زون نامی دو کمپنیوں کے خلاف تحقیقات میں ایف بی آر کے ڈیٹا میں یوبی ایل سکندر بلاک لاہور برانچ کوڈ نمبر 0118 کے ایک اکاوئنٹ میں 66 ارب 59 کروڑ 56 لاکھ 18 ہزار 671 روپے کی ٹرانزیکشن ظاہر کی گئی ۔
یہ اکاوئنٹ واپڈا لاہور ڈائریکٹوریٹ کے ایک ملازم محمد اجمل خان کا ہے جو واپڈا سے ریٹائرڈ ہوچکا ہے اور اس کے کھاتے میں ہر ماہ واپڈا کی پینشن دس ہزار روپے منتقل ہوتی ہے جبکہ ایف بی آر کو اس اکاوئنٹ میں اتنی بھاری ٹرانزیکشن نظر نہیں آئی ۔
ایف بی آر انٹرنل آڈٹ نے ایف بی آر کے ڈیٹا سسٹم میں اس اکاوئنٹ کو اپ لوڈ کرنے والے اسلام آباد کے رہائشی سید احمد رضا زیدی اور اکاوئنٹ ہولڈر محمد اجمل خان کو 66 ارب کی ٹرانزیکشن ظاہر کرنے پر 11 ارب سے زائد ٹیکس کا نوٹس ارسال کیا ہے تاہم دونوں افراد نے تاحال انٹرنل آڈٹ کی ٹیم سے تاحال رابطہ نہیں کیا ہے۔
ایف بی آر زرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بے نامی اکائونٹس اور کمپنیوں کے کھاتوں میں بھاری ٹرانزیکشن ہوتی تھی تاہم یہ نیا طریقہ کار ہے جس میں ایف بی آر کے ڈیٹا میں بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اپ لوڈ ہوئی ہیں لیکن اس اکاوئنٹس میں رقم کبھی منتقل ہی نہیں ہوئی ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیلز ٹیکس ایکٹ کی سیکشن 73 کے نوٹس پر عمل درآمد کے لئے غریب اور پیشن ملازمین کے اکائونٹس کو استعمال کر کے منی ٹریل دی گئی ہے جس کی تحقیقات جاری ہے۔