
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کسٹم جنرل آرڈر کے زریعے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کے اختیارات میں معمولی تبدیلی کردی،ڈائریکٹوریٹ سے افرادی قوت میں کمی سے کارکردگی مزید متاثر ہونے کا امکان بڑھ گیا،کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن میں رشوت وصولی کی شکایات پر کیا قابو پا لیا جائے گا۔
کسٹم انٹیلی جنس کے اختیارات میں تبدیلی سے ڈی جی کے بجائے ممبر کسٹم آپریشن کے عہدے کی اہمیت بڑھ گئی، آنے والے دنوں میں اس عہدے پر افسران کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔
ایف بی آر نے جمعہ کو تین علیحدہ علیحدہ نوٹیفکیشن کے زریعے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کے اختیارات کا تعین کردیا ہے جس کے بعد امکان ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ایک اور نوٹیفکیشن کے زریعے کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن سے جانے والے سپئرئٹنڈنٹ اور انٹیلی جنس افسران کو ملنے والے اختیارات اور تفتیشی عمل میں قانونی رکاوٹ دور کرنے کے لئے جاری کیا جائے گا کیونکہ کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن سے جانے والے سپرٹنڈنٹ کو انفورسمنٹ میں ایس پی ایس اور انٹیلی جنس افسر کو آئی پی او تعینات کیا جاتا رہا ہے اور اسی اختیارات کے تحت وہ کسی بھی مقدمہ درج کرنے یا کارروائی کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایف بی آر نے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کے اختیارات کے لئے کسٹم جنرل آرڈر 5/2024جاری کیا ہے اور دو علیحدہ نوٹیفکیشن میں ایس آر او کے زریعے کسٹم انٹیلی جنس کے کا کام کا طریقہ بیان کیا گیا یے۔
اس سلسلے میں ایف بی آرکی جانب سے ایس آراو1815 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) اسلام آباد میں قائم ہوگاجس میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کا ہیڈ کوارٹر اسلام آبادااورڈائریکٹرہیڈکواٹرکا دفتر، علاقائی ڈائریکٹوریٹ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے دفترشامل ہوں گے۔
ڈائریکٹر جنرل ممبر کسٹمز (آپریشنز) کو رپورٹ کریں گے۔ ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) (ہیڈ کوارٹر) اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) کے علاقائی ڈائریکٹوریٹ ڈائریکٹرز کی سربراہی میں ہوں گے اور ان کی معاونت ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، پرنسپل اپریزرز، سپرنٹنڈنٹس، اپریزنگ افسر کریں گے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز)کوجو ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنا اور درآمدات، برآمدات، رعایتی اسکیموں وغیرہ سے متعلق ڈیوٹیوں یا ٹیکسوں کی چوری سے متعلق معلومات جمع کرنا، جو انٹیلی جنس الرٹس کے ذریعے بورڈ اور متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کے ساتھ شیئر کی جائیں گی،انٹیلی جنس اکٹھا کرنا اور اسمگلنگ، اس کے رجحانات، طریقہ کار، فائدہ اٹھانے والوں، سہولت کاروں وغیرہ سے متعلق معلومات جمع کرنا، انٹیلی جنس الرٹس کے ذریعے بورڈ اور متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کے ساتھ شیئر کرنا،جدید ڈیٹا اینالیٹکس، ڈیٹا مائننگ، مشین لرننگ وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے تجارتی ڈیٹا کا تجزیہ کرنا ،خفیہ طریقوں سے معلومات اکھٹاکرنا،،منظم ڈیوٹی یا ٹیکس فراڈ کی نشاندہی کرنے کے لیے تجارت، محصول، یا کسی دوسرے معاشی ڈیٹا کی جانچ اور تجزیہ کرنا اور بورڈ اور متعلقہ فیلڈ فارمیشنز کو مطلع کرنا ہے۔
دیگر ممبر کسٹمزکی اجازت کے بغیرکسی قسم کاکوئی آپریشن نہیں کیاجائے گا،علاوہ ازیں کسٹمز ایکٹ، 1969کی سیکشن 26 کے اختیارات صرف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ، 2010 کے تحت ہونے والے جرائم سے متعلق معاملات میں صرف ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ ماضی میں ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس کے ڈی جی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کے احکامات کو بھی مکمل نظر انداز کر دیتے تھے تاہم ان ہی سابقہ ڈی جی کے زریعے کسٹم انٹیلی جنس کے اختیارات کو محدود کیا گیا اور انہیں ممبر کسٹم آپریشن کے ماتحت کردیا گیا جس سے سوال اٹھتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا کسٹم انٹیلی جنس میں رشوت وصولی کی شکایات میں کمی آ جائے گی اور ممبر کسٹم آپریشن کے عہدے کے لئے کن کن افسران کی آپس میں سرد جنگ شروع ہوگی۔