
وزیر اعظم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت آنے والے شعبہ جات میں اربوں روپے مالیت کے عدالتوں میں پھنسے کیسسز کو فوری حل کرنے کی رپورٹ چئیرمین ایف بی آر سے طلب کرلی۔
وزیراعظم کی جانب سے کاروباری افراد کے انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس ریفنڈز کے ہزاروں مقدمات کی مکمل تفصیلات کے ساتھ ایسے ایف بی آر افسران کا بھی ریکارڈ طلب کرلیا گیا جو سیلز ٹیکس اور جعلی انوائسسز کے زریعے قومی خزانے کو نقصان پہچانے میں سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت آنے والے لیگل اینڈ اکاؤنٹنگ کسٹمز نے ملک بھر میں تعینات چیف کلکٹرز کسٹمز،ڈائریکٹر جنرلز ،ایف بی آر کمشنرز سے گزشتہ برسوں میں سپریم کورٹ،چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس،ایپلنٹ کورٹ ،کسٹم کورٹ ،ٹریبونلز ایڈجیوڈکیشن میں پھنسی ایسی آئینی درخواستوں جس پر حکم امتناعی جاری ہو یا مقدمات میں پیش رفت نا ہو یا کوئی بھی قانونی مسائل جس کی وجہ سے عدالتوں میں کیسسز کی پیروی نا ہو اور ایسے کیسسز میں اربوں روپے مالیت کی ریکوری ہونا ہو ایسے تمام کیسسز ، آئینی درخواستوں کے مکمل کوائف طلب کرلئے ہیں جس کے لئے بدھ کو ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف لاء اینڈ پروسیکیوشن ہیڈکوارٹر اسلام باد اور ممبر لیگل فیڈرل بورڈ آف ریونیو رپورٹ مرتب کر کے چیئرمین ایف بی آر کو دیں گے ۔
چیئرمین ایف بی آر کے دفتر سے یہ رپورٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کی جائے گی۔
واضح رہے کہ ایف بی آر میں افسران کا ایک بڑا گروہ جعلی انوئسسز کے کاروبار کے ساتھ ،سیلز ٹیکس ریفنڈ ،فرضی کمپنیوں ،امپورٹ ،ایکسپورٹ سے منسلک تاجروں کو رعایت دینے کے عیوض سہولت کاری میں ملوث ہے اور اسی نشان دہی کے سبب گزشتہ ایک برس کے دوران ایف بی آر کے بڑے افسران کے تبادلوں ،ایڈمن پول میں ڈالنے کے بعد ان ٹیموں کو توڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تاہم ان افسران کے اثر ورسوخ اور نچلے عملے تک موجود ٹیم کی وجہ سے ایف بی آر کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں ایسے کیسسز کی پیروی متاثر ہوتی ہے جس میں اربوں روپے کی ریکوری گزشتہ کئی برس سے تعطل کا شکار ہے۔
اسی لئے ایف بی آر نے ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف لاء اینڈ پروسیکیوشن کا شعبہ رواں برس علیحدہ تشکیل دیا لیکن ایف بی آر کے بعض افسران اس شعبے میں افرادی قوت آنے نہیں دے رہے جس کی وجہ سے یہ شعبہ تاحال فعل نہیں ہوسکا ہے اور وزیر اعظم ہاؤس کہ جانب سے ایسے کیسسز کی پیروی کے بعد امکان ہے کہ رواں برس قائم ہونے والے ڈائریکٹوریٹ میں افرادی قوت کے زریعے اس کو فعل کیا جائے جس کے بعد عدالتوں میں کیسسز کی پیروی کی رفتار میں اضافے کا امکان ہے۔