images

نیشنل بینک میں مرحوم پینشنرز کے غیر فعال اکائونٹس کا استعمال کر کے کروڑوں روپے کا ڈاکہ ۔۔انٹرنل آڈٹ کی رپورٹ میں انکشاف کے باوجود بینک انتظامیہ چوری میں ملوث افسران کو بچانے لگی۔

نیشنل بینک آف پاکستان کے پینشنرز اکائونٹس سے کروڑوں روپے چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے ،قومی بینک کے فراڈ انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ میں تحقیقات جاری ہیں ، فراڈ کی تحقیقات کے لئے بینک انتظامیہ نے علیحدہ انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ، رقم مرحوم پٹیشنرز کے اکائونٹس فعال کر کے نکلوائی گئی۔

وفاقی حکومت بچت اسکیم کے نام پر سرکاری ملازمین کی پینشن اسکیم کو ختم کرنے کی پلاننگ میں مصروف ہے دوسری جانب نیشنل بینک آف پاکستان کے افسران پیٹشنرز اکائونٹس سے کروڑوں روپے چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تاہم اس کے باوجود ان افسران کے خلاف بینک انتظامیہ کارروائی کے بجائے انہیں بچانے کے لئے سرگرم ہوگئی ہے اور انٹرنل آڈٹ کی رپورٹ پر ایف آئی اے یا نیب میں شکایت سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔

نیشنل بینک آف پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران بھی ایسے پینشنرز اکائونٹس کو فعال کیا گیا جس میں کروڑوں روپے موجود تھے تاہم پینشن حاصل کرنے والے شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کے ورثاء کی جانب سے بھی پینشن حاصل کرنے کے لئے بینک انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا ۔

حالیہ دنوں میں نیشنل بینک آف پاکستان حیدرآباد میں موجود نیو کلاتھ مارکیٹ برانچ کی اسپیشل آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا کہ بینک میں موجود پینشن فنڈز میں کروڑوں روپے کی خوردبرد کی گئی ہے اور بینک میں موجود ایسے پینشن اکائونٹس جو غیر فعال تھے یا اکائونٹس ہولڈرز کا انتقال ہوگیا تھا ان کے اکائونٹس کو فعال کر کے رقم کی چوری کہ گئی ہے ۔

اس واقعہ کی رپورٹ بینک سربراہ کو کی گئی جس پر قومی بینک کے فراڈ انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کو ہدایت جاری کی گئی کہ مزکورہ بینک کے منیجر حیدر علی شیخ اس برانچ میں تعینات ہیں اس وقت سے تمام پینشن اکائونٹس جو فعال ہیں یا غیر فعال ہیں ان سب کا آڈٹ کیا جائے اور اس کی مکمل رپورٹ سے آگاہ کیا جائے تاہم مبینہ طور پر منیجر حیدر علی شیخ کو ایچ آر ہیڈ کی سرپرستی حاصل ہے اس لئے منیجر کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے اور دو ملازمین دانش اور کاشف کے خلاف شکایات پر کی جانے والی اپیل کو مسترد کر کے ان دونوں ملازمین کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا یے ۔

یاد رہے کہ قومی بینک کے سربراہ کی جانب سے منٹھار علی جمالی ، سہیل میمن اور فہد مقبول پر مشتمل اسپیشل آڈٹ ٹیم کو بھیجا گیا جس نے اس برانچ سے 556 ایسے مشکوک چیکس پکڑئے تھے جو غیر فعال اکائونٹس کے زریعے کلئیر کئے گئے اور اس ٹیم نے چیکس کی نقول سمیت رپورٹ بنا کر نیشنل بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس ارسال کی تاہم اس رپورٹ کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی ہے جبکہ فراڈ میں مبینہ طور پر شامل مرکزی کردار کو بھی بحال کردیا گیا ہے ۔

یاد رہے کہ ماضی میں اس طرح کی شکایات پر بینک انتظامیہ کہ جانب سے فوری طور پر ایف آئی اے کو شکایت ارسال کی جاتی تھی اور اس طرح کی سینکڑوں انکوائریاں ایف آئی اے کے مختلف سرکلز میں تاحال تعطل کا شکار ہیں لیکن اس بار انتظامیہ از خود ہی شکایت ایف آئی اے کو ارسال کرنے سے گریز کر رہی ہے ۔