
این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کو 16 برس پرانی مالی کرپشن میں ایف آئی اے کراچی نے ملزم کی فہرست سے نکال دیا،
عدالت کا ایف آئی اے چالان تسلیم کرنے سے انکار،ڈی جی ایف آئی اے نے ازسرنو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کا نام ایف آئی اے کراچی کے مقدمے سے نکال دیا گیا ،ڈی جی ایف آئی اے راجہ رفعت مختیار برہم ہوگئے،مقدمے کی از سرنو تحقیقات کا حکم دے دیا ،تین برس پرانے مقدمے کے فائنل چالان میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی کے تفتیشی افسر کی عدالت میں بھی سرزنش کی گئی اور 25 جولائی 2025 کو جمع ہونے والے چالان کی عدالت نے تاحال منظوری نہیں دی ،عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے نامزد کردہ ملزمان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر کہا ہے کہ پہلے عدالت چالان تسلیم کرئے گی تو آپ ملزمان کی فہرست میں آئیں گے۔
ایف آئی اے کراچی نے نیشنل انشورنس کمپنی کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کو مبینہ طور پر سہولت کاری فراہم کرنے کے لئے 16 برس بعد بھی اپنے روئیے میں تبدیلی نہیں کی ہے ۔
یاد رہے کہ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کی مالی سال 2009 اور 2010 کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ صرف دو ماہ میں این آئی سی ایل کے افسران نے ملکی اور غیر ملکی دوروں کے دوران ایک کروڑ کے لگ بھگ ائیر ٹکٹس کا استعمال کیا جس کے لئے لاہور کی ایک ٹریول ایجنسی میسرز ٹریول سولوشن کو جعلی انوائسسز پر ادائیگی کی گئی اور جن افسران افسران کے نام پر ٹکٹ کی ادائیگی ہوئی حیرت انگیز طور پر ان افسران کے ریکارڈ میں سفر کے دوران کوئی ٹی اے ڈی اے وصول نہیں کیا گیا جبکہ ریکارڈ کی چھان بین میں معلوم ہوا کہ این آئی سی ایل کے افسران کا نام جعل سازی کے زریعے شامل کیا گیا اصل میں این آئی سی ایل کے اس وقت کے سربراہ ایاز خان نیازی نے ادارے کے فنڈز سے ایسی خواتین کو ملکی اور غیر ملکی دوروں کے لئے ائیر ٹکٹس کی رقوم ادا کیں جو این آئی سی ایل میں ملازم یا افسر کے حیثیت سے تعینات بھی نہیں تھیں جبکہ اس وقت کے ایف آئی اے افسران جو بعد ازاں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے ان افسران کو بھی سفری اخراجات کے لئے این آئی سی ایل کے کھاتوں سے ادائیگیاں ہوئیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ جب 2016 میں اس مالی بے ضابطگیوں پر ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس پینشنرز فاؤنڈیشن پنجاب کے صدر ملک نور حسین اور جنرل سیکرٹری سید مہر حسین شاہ کی درخواست پر ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں موجود اسپیشل انوسٹیگیشن یونٹ میں انکوائری نمبر 18/2016ایک برس تک موجود رہی جس کے بعد اس انکوائری کو ایف آئی اے کراچی کے اینٹی کرپشن سرکل میں منتقل کر انکوائری نمبر 55/2017 میں رجسٹرڈ کیا گیا اور فائل کو سرد خانے میں جھونک دیا گیا اور اس انکوائری کو مقدمے میں تبدیل کرنے کے لئے 5 برس لگے اور ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں 6/2022 درج کیا گیا مزکورہ مقدمہ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں آنے والے انسپکٹر محمد عالم نے درج کیا اوراس مقدمے کی تفتیش میں پھرتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 8 ماہ بعد اس مقدمے کا ابتدائی چالان پیش کیا گیا جس میں مبینہ طور پر اہم شواہد کو شامل نہیں کیا گیا یہ ابتدائی چالان بھی تفتیشی افسر محمد عالم کے دستخط سے عدالت میں جمع ہوا اور اس کے ڈیڑھ برس بعد عدالت میں اس کیس کا فائنل چالان 31 جولائی 2024 کو جمع ہوا جس میں تفتیشی افسر ارسلان قاضی کے دستخط موجود ہیں تاہم اس مالی بدعنوانی کے مبینہ طور پر مرکزی کردار ایاز خان نیازی کو ملزمان کی فہرست سے نکال دیا گیا جبکہ دو ملزمان سعید اسلم پروٹوکول افسر این آئی سی ایل لاہور اور ایوب صدیقی ریجنل ہیڈ این آئی سی ایل لاہور کو مفرور قرار دیا گیا ہے اور ایک ملزم محمد فاروق خان کو بھی ملزم کی فہرست میں برقرار رکھا گیا یے تاہم وہ ضمانت پر مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔سینٹرل کورٹ نمبر 2 میں تعینات جج نے 8 کے لگ بھگ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس مقدمے کے چالان کی منظوری نہیں دی ہے ۔اور جن ملزمان کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل کیا ان کی سنوائی بھی نہیں کی عدالت نے موقف اختیار کیا ہے کہ پہلے عدالت چالان تسلیم کرئے گی تو پھر ضمانت کی درخواست پر سنوائی ہوگی۔دوسری جانب جب یہ معاملہ موجودہ ڈی جی ایف آئی اے راجہ رفعت مختیار کے سامنے آیا تو موجودہ ڈی جی نے ایف آئی اے افسران کی سرزنش کی اور اس انکوائری کو ازسرنو کرنے کی منظوری دی ہے ۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے میں درج ہونے والی اس طرح کی انکوائریوں پر مقدمات میں تفتیشی افسران کی تبدیلیوں تاخیری حربوں کے زریعے عدالتی کارروائیوں میں کمزور ہوتے رہے ہیں اور اس کا فائدہ ملزمان کو ملتا رہا ہے۔