
نیشنل بینک آف پاکستان کی مین برانچ کے لاکرز سے کروڑوں روپے مالیت کے سیونگ سرٹیفیکیٹ جعل سازی کے زریعے کیش کروا لئے گئے ،ایف آئی اے میں انکوائری شروع
نیشنل بینک آف پاکستان کی مین برانچ کے لاکر سے کروڑوں روپے مالیت کے سیونگ سرٹیفیکیٹ جعل سازی کے زریعے غائب ہونے کا نیا مالیاتی اسکینڈل سامنے آگیا،نیشنل بینک آف پاکستان نے ایف آئی اے کو تحریری شکایت کر کے انکوائری درج کروادی ہے تاہم بینک نے انٹرنل انکوائری کو مکمل کرنے کے باوجود رپورٹ تیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
نیشنل بینک آف پاکستان میں مالی بے ضابطگیوں پر درجنوں شکایات ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو میں جمع ہیں جس پر انکوائریوں کے ساتھ مقدمات کا بھی اندراج ہوا ہے تاہم ان مقدمات اور انکوائریوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔
نیشنل بینک آف پاکستان میں حالیہ دنوں میں نیا مالیاتی اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں بینک کی انتظامیہ پر کئی سوالات اٹھے ہیں ۔نیشنل بینک آف پاکستان کی کراچی مین برانچ میں کروڑوں روپے مالیت کے سرٹیفیکیٹ جعل سازی کے زریعے کیش کروا لئے گئے ہیں اور اسکی تحریری شکایت گروپ چیف آپریشنز کو ہوچکی ہے اور انہوں نے اس ضمن میں نیشنل بینک آف پاکستان کراچی کے فراڈ انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے سینئر وائس پریزیڈنٹ عبد الرحمان چوہدری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ اس انکوائری کمیٹی کے دیگر اراکین میں شکیل احمد فراڈ انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ لاہور،وائس پریزیڈنٹ کاشف ریحان بھی شامل ہیں جو معاملے کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ بینک کے اعلی حکام کو کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہی رپورٹ ایف آئی اے کو بھی ارسال کریں گے جس پر ایف آئی اے اپنی تحقیقات کر کے فیصلہ کرئے گا کہ اس پر بینک میں کون کون ملوث ہے جو اس مالیاتی اسکینڈل کی زد میں آئے گا۔
واضح رہے کہ جس برانچ میں سیونگ سرٹیفیکیٹ چوری ہوئے اس مین برانچ میں اربوں روپے کی یومیہ ٹرانزیکشن ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک بڑے کاروباری علاقے میں موجود ہے تاہم بینک کے اعلی افسران کی منظور نظر آفیسر گروپ تھری میں آنے والی ایک جونئیر افسر بیلا جمشید کو انچارج کی حیثیت سے تعینات کیا گیا یے اور یہ ہی خاتون افسر سیونگ سرٹیفیکیٹ لاکرز کہ بھی انچارج ہیں اور نیشنل بینک آف پاکستان کے حلقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ مزکورہ خاتون صدر نیشنل بینک آف پاکستان کے دو منظور نظر افسران کا انتخاب ہیں اس لئے مین برانچ میں انہیں اہم عہدے پر تعینات کیا گیا ہے جبکہ مین برانچ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس برانچ میں عملے کی کمی کا فائدہ بھی جعل ساز گروپ نے اٹھایا ہے جس پر تحقیقات کی ضروت ہے۔
اس ضمن میں نیشنل بینک آف پاکستان کے اعلی عہدوں پر بیٹھے افسران پر کئی سوالات اٹھتے ہیں جیسے گروپ چیف کمپلائنس پر سوال اٹھتا ہے کہ ٹرانزیکشن مانیٹرنگ سسٹم کے باوجود جونئیر افسر کے اکاوئنٹ میں رقوم کی منتقلی پر سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا ۔۔؟؟
نیشنل بینک آف پاکستان کے ساؤتھ ریجن ہیڈ نے جونئیر افسر کو کیسے اور کیوں مین برانچ میں تبادلہ کر کے اہم عہدہ دے دیا ۔۔؟؟
انٹرنل گروپ نے مشتبہ واؤچرز ،پیمنٹ آرڈرز پر دستخط ہوئے اس مشکوک سرگرمی کو رپورٹ کیوں نہیں کیا گیا۔۔؟؟
دوسری جانب ایف آئی اے حکام نے نیشنل بینک آف پاکستان میں لاکرز سے سرٹیفیکیٹ چوری ہونے کے معاملے کی انکوائری کی تصدیق کی ہے تاہم ایف آئی اے کا موقف ہے کہ بینک انتظامیہ جب تک انٹرنل انکوائری رپورٹ نہیں بھیجے گی اس وقت تک ایف آئی اے میں انکوائری شروع نہیں ہوگی۔