Screenshot_2025_0527_174504

پاکستان میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری اور مالیاتی بے ضابطگیاں بھی پیچیدہ اور منظم شکل اختیار کر چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں بیٹری مینوفیکچرنگ کی ایک بڑی کمپنی، میسرز دینار انڈسٹریز، 12 ارب روپے کے مبینہ جعلی سیلز ٹیکس ریٹرنز اور فلائنگ انوائسسز کے اسکینڈل کی زد میں ہے۔ یہ کیس نہ صرف ٹیکس چوری کا آئینہ دار ہے بلکہ اس میں ریاستی اداروں کی مبینہ ملی بھگت، تفتیش میں شفافیت کی کمی اور عدالتی عمل کو متاثر کرنے کی کوششوں کے الزامات بھی شامل ہیں۔

میسرز دینار انڈسٹریز، جو حب، بلوچستان میں واقع ہے اور پاکستان کی دوسری بڑی بیٹری مینوفیکچرنگ کمپنی سمجھی جاتی ہے، اس وقت ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل میں ملوث پائی گئی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، کمپنی نے ستمبر 2021 سے جنوری 2024 تک کے عرصے میں ایک ارب 53 کروڑ روپے کے جعلی سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کروائے۔ جب کہ فروری تا جون 2024 کے عرصے میں 12 ارب روپے سے زائد کے ریٹرنز کو مبینہ طور پر چھپا لیا گیا۔

اس مقدمے کی ایک اہم اور مشکوک بات یہ رہی کہ ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو حیدرآباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد جنید نے 14 مئی 2025 کی علی الصبح 4:30 بجے انکوائری رپورٹ مکمل کی۔ ایف بی آر کی ایس او پیز کے مطابق، رات دیر گئے دفاتر میں کام کو غیر معمولی اور مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ اگلے ہی دن یعنی 15 مئی کو کمپنی کے ڈائریکٹرز کو نامزد کیا گیا، جن میں عبد القادر، سلمان علی ستار، اور اصل مالک اصف رزاق دینار شامل ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ کمپنی نے اپنی سیلز تو ظاہر کیں، لیکن خریداروں کا کوئی ریکارڈ مہیا نہیں کیا۔ یہ طریقۂ کار فلائنگ انوائسسز کے عام ہتھکنڈوں میں شامل ہے، جہاں جعلی کمپنیاں خریدار کے طور پر درج کی جاتی ہیں تاکہ اصل خریدار کو قانونی گرفت سے بچایا جا سکے۔ بیٹری مینوفیکچرنگ کے لیے لیڈ (Lead) کی درآمد میں ایچ ایس کوڈز کا غلط استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔


ایف بی آر کے اندر بعض افسران پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی کمپنیوں کو مقدمات میں فائدہ پہنچانے کے لیے اہم نکات کو یا تو حذف کرتے ہیں یا غیر مؤثر بناتے ہیں۔ خریداروں کو نہ صرف نوٹسز کے ذریعے بلایا جاتا ہے بلکہ مبینہ طور پر ان سے رشوت بھی وصول کی جاتی ہے، اور بعد میں ان کے نام چالان میں شامل نہیں کیے جاتے۔

میسرز دینار انڈسٹریز نے اس مقدمے کے خلاف بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی ہیں، جو اس مقدمے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ اس عدالتی عمل میں بھی مبینہ کوشش کی جا رہی ہے کہ قانونی سقم اور کمزور تفتیش کا فائدہ اٹھا کر ملزمان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ کیس صرف ایک کمپنی کی ٹیکس چوری نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی ناکامی کی تصویر ہے۔ تفتیشی اداروں کی صلاحیت، غیر جانبداری اور شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ:

تفتیش کے عمل کو خودکار اور شفاف بنایا جائے۔

ایف بی آر اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس میں احتساب کا مضبوط نظام نافذ کیا جائے۔

خریداروں کی تفصیلات کو لازمی قرار دیا جائے اور انہیں چالان میں شامل کیا جائے۔

عدالتی نگرانی کے تحت ایسے مقدمات کی تفتیش کی جائے تاکہ کسی کو رعایت نہ دی جا سکے۔

دینار انڈسٹریز اسکینڈل ایک یاد دہانی ہے کہ جب صنعتی ترقی کے ساتھ ریاستی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوں تو قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس مقدمے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ صرف اس کیس بلکہ مستقبل کی شفاف مالیاتی گورننس کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔