Screenshot_2025_0527_174504

فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ٹرانسفورمیشن نظام کے لئے قائم فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ (ایف سی اے) کے ماتحت کسٹمز اپریزنگ یونٹ(سی اے یو) کی ابتدائی 5 ماہ کی کارکردگی کا پول کھل گیا،فیس لیس نظام ریونیو کے لئے خطرہ بن گیا۔؟,گڈز ڈیکلریشن کی کلئیرنس کے وقت میں غیر معمولی اضافہ،فزیکل ایگزامنیشن میں کئی گھنٹوں کی تاخیر، تاجروں کی شکایات میں اضافہ،نظر ثانی کی اپیلوں کہ شرح میں اضافہ،محصولات گرواٹ کا شکار ہوگئی۔

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال کے دوران 15 دسمبر 2024 سے ایف بی آر میں اصلاحات کے لئے متعارف کرانے والے فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ اور کسٹمز اپریزنگ یونٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز رسک مینجمنٹ سسٹم کے ڈی جی اشہد جواد کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس میں ڈائریکٹر پوسٹ کلئیرنس آڈٹ شیراز احمد اور ڈائریکٹر رسک مینجمنٹ سسٹم اظہر حسین مرچنٹ بھی شامل تھے اس کمیٹی نے 13 مئی 2025 کو اپنی رپورٹ مکمل کر کے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر منبر کسٹم اپریشن کو ارسال کردی ۔دس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ رپورٹ چیف کلکٹر کسٹم اپریزمنٹ ساؤتھ کو بھی پہلے بھیجی گئی ہے

رپورٹ میں فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ نظام کی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا گیا یے کہ کلیئرنس میں غیر معمولی تاخیر، محصولات میں کمی اور نظامی کمزوریاں واضح نظر آرہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دس ماہ کے اعداد و شمار نظام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں یہ رپورٹ جولائی 2024 سے اپریل 2025 تک کے دس ماہ کے جائزے پر مبنی ہے، اور یہ ایف بی آر کے اُس دعوے کو چیلنج کرتی ہے کہ فیس لیس نظام تجارتی عمل کو تیز اور جدید بنائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ایسے گڈز ڈیکلیریشنز (GDs) جن کی فزیکل جانچ نہیں کی گئی، ان کی اوسط کلیئرنس ٹائم 57 فیصد بڑھ گئ یعنی 25 گھنٹے سے بڑھ کر 46 گھنٹے تک پہنچ گئی ہے ۔جن گڈز ڈیکلریشن کی جانچ پڑتال ہوئی، وہاں کلیئرنس وقت مارچ 2025 میں 87 گھنٹے تک پہنچ گیا، جو فیس لیس نظام سے قبل 73.6 گھنٹے تھا۔

رپورٹ کے مطابق ںظرثانی اور اپیلوں کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد ہو گئی۔فزیکل معائنے کی شرح دسمبر 2024 میں صرف 3 فیصد تھی جو اپریل 2025 تک بڑھ کر 14 فیصد ہو گئی، حالانکہ فیس لیس نظام کا مقصد ہی مینول مداخلت کم کرنا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اضافی ڈیوٹی کی مد میں جولائی تا نومبر 2024 کے دوران 16 فیصد اوسط رہی جبکہ دسمبر تا اپریل 2025 میں یہ 13 فیصد تک گر گئی اور ہر ماہ شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔جس کی مثال اکتوبر 2024 میں ریونیو میں 20 فیصد کمی،جنوری 2025 میں 74 فیصد کا وقتی اضافہ (خصوصی آڈٹس کی بنیاد پر)،فروری میں 40 فیصد گراوٹ اور مارچ،اپریل میں صرف 11–14 فیصد پر جمود نظر ایا۔

رپورٹ کے مطابق ٹریڈر ہسٹری تک رسائی روک دی گئی، جس سے رسک اسیسمنٹ غیر مؤثر ہو گئی۔متعدد ٹیمیں تحلیل کر دی گئیں (مثلاً کیمیکل، ٹیکسٹائل سیکٹرز)، جس سے پیچیدہ امپورٹس کی کلیئرنس سست پڑ گئی۔یہ خامیاں ماضی کے ناکام تجربات کی یاد دلاتی ہیں۔

کمیٹی کی رپورٹ میں اہم سفارشات کی گئی جس میں فیس لیس نظام کی توسیع روکنے کا مطالبہ کیا گیا یے جب کہ متعدد اسسمنٹ یونٹس کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا یے۔رپورٹ میں زور دیا گیاہے کہ گاڑیاں، ٹیکسٹائل، کیمیکل جیسے ہائی رسک سیکٹرز کے آڈٹس کرائے جائیں۔ٹریڈر ڈیٹا میں شفافیت بحال کی جائے۔نظرثانی کی درخواستوں پر تاخیری حربے بند کیے جائیں۔

رپورٹ میں چیف کلکٹر اپریزمنٹ ساؤتھ کے کردار کو بھی کھل کر بیان کیا گیا ہے کہ جیف کلیکٹر اپریزمنٹ ساؤتھ نے تمام کلکٹرز اور ایڈیشنل کلکٹرز کے قانونی اختیارات معطل کر دیے ہیں جس سے مقاصد پر سوال اٹھنے لگے ہیں اور اسی وجہ سے تاثر ملتا ہے کہ فیس لیس نظام کا فریم ورک کچھ مخصوص مفادات کو فائدہ پہنچانے والا لگتا ہے۔انٹیلیجنس اینڈ انویسٹیگیشن (I&I) کو معطل کر دیا گیا۔ریویو پراسیس میں تاخیر کے لیے ڈپٹی اور اسسٹنٹ کلکٹرز کو استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے ٹریڈرز نظرثانی سے باز رہتے ہیں اور اضافی 80–100 ہزار روپے بطور ڈیمریج، ڈیٹینشن و دیگر لاگت کی مد میں ادا کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمینی حقائق: کسٹمز کا نظام بوجھ تلے دب گیا ہے ڈپٹی و اسسٹنٹ کلیکٹرز کی کمی سے نظرثانی کے عمل میں تاخیر ہونا شروع ہوئی ہے پرنسپل اپریزرز کے تحت GD کھولنے میں 4 دن تک کی تاخیر ہونے لگی ہے،تمام تر اختیارات چیف کلکٹر اور آپریشن تک محدود ہوگئے ہیں۔

کسٹمز افسران کا کہنا ہے کہ کارکردگی کا دباؤ اور اختیارات کی کمی نے مورال ختم کر دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا یے کہ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو فیس لیس نظام نہ صرف قومی ریونیو کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ پاکستان کی تجارتی سہولت کاری کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا۔ اس رپورٹ نے ایف بی آر پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ فیس لیس نظام پر نظرثانی کرے۔