
اسٹیل کوائل کی درآمد میں جعل سازی کے زریعے قومی خزانے کو 50 کروڑ سے زائد کا نقصان پہچانے والا ایک اور اسکینڈل بے نقاب،اعلی افسران کی مداخلت پر ملوث گروپ کو بچانے کی کوششیں شروع،مقدمے نے ریوارڈ اینڈ ریٹنگ سسٹم پر بھی سوالات اٹھا دئیے۔
کراچی کسٹمز نے ایک کیس کی تحقیقات میں بڑے ایکشن لیتے ہوئےجعلی درآمدات کو بے نقاب کیا ہے، کسٹمز اپریزمینٹ ایسٹ نے درآمدی اشیاء کی جعلی درجہ بندی اور چھپانے کی ایک بڑے پیمانے پر اسکیم بے نقاب کی ہے، جس سے قومی خزانے کو تقریباً 50 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔
یہ اسکینڈل ایک خفیہ اطلاع پر شروع ہونے والی تحقیقات کے بعد سامنے آیا جس میں ایک مقامی امپورٹر ٹری اسٹار پیکج اور اس کے کلیئرنگ ایجنٹ محبت خان اینڈ سنز کو ملوث پایا گیا۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے درآمدی اشیاء کو دانستہ طور پر کم ٹیکس والی کیٹیگری میں ظاہر کیا تاکہ زیادہ ڈیوٹی ادا کرنے سے بچا جا سکے۔
تحقیقات کے مطابق ملزمان نے اشیاء کو اس انداز سے کنٹینرز میں رکھا کہ بیرونی پرت پرائم کوالٹی اسٹیل کوائلزکی تھی، جب کہ اندرونی پرت میں مہنگی اور زیادہ ڈیوٹی والی "سیکنڈری کوالٹی الیکٹرولائٹک ٹِن پلیٹ چھپائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ، اشیاء کی قیمت بھی جان بوجھ کر کم بتائی گئی—صرف 0.5850 امریکی ڈالر فی کلوگرام، جب کہ مارکیٹ ریٹ 0.86 ڈالر تھا، جیسا کہ ویلیوایشن رولنگ نمبر 1948/2025 میں درج ہے۔
کلکٹر کسٹمز نوید الٰہی کی قیادت میں چھ ٹیمیں تشکیل دی گئیں، جنہوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے چھ گڈز ڈیکلریشن (جی ڈیز)کو بلاک کیا جب کراچی کسٹمز ہاؤس میں مشکوک کنسائنمنٹس کا معائنہ کیا گیا تو اندر سے الیکٹرولیٹک ٹن پلیٹس (ای ٹی پی)برآمد ہوئی جو امپورٹر کے دعووں کے برعکس تھی۔
معاملے کی تصدیق 23 مئی کو لیبارٹری تجزیے کے ذریعے ہوئی، جس کے بعد ایف آئی آر نمبر 08/2025 درج کی گئی۔ گرفتار شدگان پر کسٹمز ایکٹ 1969 کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جن میں سیکشنز 32(1), 32(2), 32A, 79, اور 209 شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی خلاف ورزیوں پر بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔
گوداموں اور فیکٹریوں پر چھاپے، بڑی مقدار میں مال برآمد ہوااپریزرنگ افسر جاوید عباس کی قیادت میں چھاپوں کے دوران
1,031 ٹن گالوالم اسٹیل کوائلز ایک نجی بانڈڈ گودام سے برآمد کی گئیں،520 ٹن دوسرے گودام سے اور 200 ٹن ایک فیکٹری سے قبضے میں لی گئیں۔متعلقہ فیکٹری کی مکمل اشیاء بھی ضبط کر لی گئی ہیں،ظامی خامیاں اور اندرونی بے چینی اس کیس نے کسٹمز نظام میں موجود سنگین مسائل کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چیف کلکٹر ناصر جمیل کی پالیسیوں کے باعث بڑی مقدار میں کم قیمت پر اشیاء کی کلیئرنس ہو رہی تھی، جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔
افسران کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ ایسے افسران کو انعامات دیے جاتے ہیں جو کلیئرنگ کے دوران دستاویزات کی جانچ یا معائنہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اپریزرنگ افسر سید انصر حسین نے مبینہ طور پر ایک 4 ارب روپے کا فراڈ بے نقاب کیا، مگر اس کے باوجود انہیں کوئی اعزاز نہیں دیا گیا بلکہ ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا یے۔
تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا جا رہا ہے۔ متعلقہ اداروں نے وعدہ کیا ہے کہ ٹری-اسٹار پیکجز اور محبت خان اینڈ سنز کے تمام مالکان، ڈائریکٹرز اور ساتھیوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
یہ کیس نہ صرف ایک مالی اسکینڈل ہے، بلکہ یہ ملک میں کسٹمز نظام کی خامیوں اور انتظامی بے ضابطگیوں کی ایک گہری تصویر پیش کرتا ہے۔