
اسٹیل کوائل کی درآمد میں جعل سازی کا معاملہ اب محض ٹیکس چوری تک محدود نہیں رہا۔ کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ کی جانب سے جاری کردہ تحقیقات نے نہ صرف 80 کروڑ روپے سے زائد کی ٹیکس ڈیوٹی چوری کو بے نقاب کیا بلکہ ایک ایسا بھیانک چہرہ سامنے لایا ہے جہاں زہریلے میٹیریل کے ذریعے انسانی جانوں سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
23 مئی 2024 کو کراچی کسٹمز ہاؤس میں ایک بظاہر عام سی کنسائمنٹ کو روکا گیا۔ ڈیکلریشن میں "گالوالم اسٹیل کوائل” ظاہر کیا گیا، مگر جب اس کی تہہ در تہہ کو کھولا گیا تو اس میں الیکٹرولیٹک ٹن پلیٹس (ای ٹی پی)برآمد ہوئیں ۔کسٹمز لیب نے 27 مئی کو تصدیق کی کہ کنسائمنٹ میں دی گئی معلومات جھوٹ پر مبنی تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب تفتیش کی سوئی جعل سازی سے نکل کر ایک بڑے مالی اور انسانی جرم کی طرف مڑ گئی۔
تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ جس کنسائمنٹ کو روکا گیا، وہ ٹرائی اسٹار پیکجز کی ملکیت تھی۔ مگر یہ صرف ایک کمپنی نہیں، بلکہ ایک خاندان کی ملکیت میں چلنے والے مشتبہ اداروں کا نیٹ ورک ہے۔جو امین مٹھانی،حسن اسٹیل کے مالک،اسامہ مٹھانی،رائی اسٹار پیکجز،حزیفہ مٹھانی، فور برادرز ٹریڈنگ اور حسن علی مٹھانی، اسکائی میٹل کے مالکان پر مشتمل یے۔
یہ تمام کمپنیاں SITE انڈسٹریل ایریا کے ایک ہی پتے (B-71/A, Shad A) پر رجسٹرڈ ہیں، جہاں سے درآمد شدہ اسٹیل کوائل کو انڈسٹریل استعمال کے نام پر منگوایا جاتا ہے، مگر درحقیقت وہ کم قیمت پر کمرشل مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔
جان لیوا دھوکہ، کھانے کے ڈبوں میں زہریلا اسٹیل
اس اسکینڈل کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ یہی جعلسازی شدہ، غیر معیاری اور زہریلا اسٹیل استعمال ہوتا ہے گھی اور خوردنی تیل کے ڈبوں کی تیاری میں۔
کمپنی "عجوہ”، "روایت” اور "کھجور” جیسے بھروسے مند برانڈز کے لیبل لگا کر ان ڈبوں کو سندھ اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں بیچتی ہے۔
یہ غیر معیاری پلیٹس انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں ، جن میں زہریلے کیمیکلز، سیسہ، یا زنگ آلود مٹیریل شامل ہو سکتے ہیں جو خوراک میں شامل ہو کر کینسر جیسے امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔
گرفتاریاں، مقدمات اور چھاپے
کسٹمز حکام نے 27 مئی کے بعد 6 مزید مشتبہ کنسائمنٹس کو بلاک کر کے فاطمہ بانڈڈ ویئر ہاؤس اور مذکورہ کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپے مارے، جہاں سے مزید مشکوک میٹیریل ضبط کیا گیا۔
اب تک دو مقدمات (8/25 اور 9/25) درج کیے جا چکے ہیں جن میں ابتدائی طور پر 80 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری سامنے آ چکی ہے۔
اس کیس کی تفتیش کے اگلے مرحلے میں کیا فوڈ اتھارٹیز کو جگایا جائے گا؟یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، سندھ فوڈ اتھارٹی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کو اس معاملے میں کی تحقیقات میں مشترکہ طور پر شامل کیا جائے گا؟یا پھر یہ معاملہ صرف ٹیکس چوری تک محدود رکھ کر فائلوں میں دفن کر دیا جائے گا؟کیس میں موجود شواہد صاف بتاتے ہیں کہ یہ صرف مس ڈیکلریشن اور کسٹمز فراڈ کا معاملہ نہیں بلکہ باقاعدہ منی لانڈرنگ، خوراک میں جعل سازی، اور انسانی صحت سے مجرمانہ غفلت کی ایک بھیانک مثال ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ پچھلی کنسائمنٹس کی چھان بین،منی ٹریل کی تحقیقات ہوں گی؟۔کسٹم حکام اگر واقعی اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں، تو انہیں درج ذیل سوالات پر توجہ دینا ہو گی کہ گزشتہ کنسائمنٹس میں کیا جعل سازی ہوئی؟،کنسائمنٹس کی اصل قیمت کی ادائیگی کیسے کی گئی؟ کیا ہنڈی حوالہ یا جعلی انوائس کا استعمال کیا گیا؟،ریفنڈ اور ریبیٹ کی مد میں کس قدر قومی خزانے کو نقصان ہوا؟،کیا ان کمپنیوں نے جعلی بزنس یونٹ یا بھاری امپورٹ انوائس کا سہارا لیا؟
یہ محض کسٹمز کا نہیں، قوم کا مقدمہ بن چکا یے۔یہ اسکینڈل اب کسٹمز افسران کی کارکردگی سے بڑھ کر ملک کی سلامتی، قومی خزانے اور عوام کی صحت کا مقدمہ بن چکا ہے۔
اگر تحقیقات کو سیاسی دباؤ یا بیوروکریسی کی سستی کی نذر کر دیا گیا تو نہ صرف اربوں کا نقصان ہوگا بلکہ ہزاروں جانیں بھی خطرے میں پڑی رہیں گی۔
اب وقت ہے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کیا ہم ٹیکس چوری پر خاموش رہیں گے، یا انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں گے؟