Screenshot_2025_0502_180320

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل پشاور نے ایک خاتون سرکاری افسر کے خلاف سنگین الزامات پر مقدمہ درج کیا ہے، جنہوں نے نہ صرف دو وفاقی اداروں میں بیک وقت ملازمت کی، بلکہ ایران کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کوچ کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد خاموشی سے بیرون ملک روانہ ہو گئیں — وہ بھی اس وقت جب ان کے خلاف انکوائری جاری تھی۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے 3 جون 2025 کو مقدمہ الزام نمبر 22/2025 درج کیا، جس میں خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی خاتون افسر حاجرہ سرور دختر غلام سرور اعوان کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف ابتدائی انکوائری ایک سال قبل شہری علی شاہ سید کی درخواست پر رجسٹر کی گئی تھی، جس کا نمبر 398/2024 ہے۔

درخواست میں حاجرہ سرور پر سنگین الزامات عائد کیے گئے کہ وہ بیک وقت نہ صرف ڈپٹی ڈائریکٹر، کمشنریٹ برائے افغان مہاجرین کے طور پر کام کر رہی تھیں، بلکہ پاکستان خواتین کرکٹ بورڈ کے ساتھ بھی کئی سالوں سے منسلک ہیں۔ مزید یہ کہ وہ ایران کی قومی خواتین کرکٹ ٹیم کی کوچ بھی رہ چکی ہیں جو کہ سول سرونٹ رولز 1964 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت کسی سرکاری ملازم کو بغیر اجازت دوسری ملازمت یا غیر ملکی ادارے سے منسلک ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

بیرون ملک روانگی، پاسپورٹس، پروٹوکول اور خاموشی میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جنوری 2025 میں خاتون افسر نے فاسٹ ٹریک طریقہ کار سے دس سال کے لیے پانچواں پاسپورٹ حاصل کیا اور 28 مارچ 2025 کو پشاور ایئرپورٹ سے ایئرعریبیہ کی پرواز کے ذریعے شارجہ روانہ ہو گئیں۔

ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ خاتون کو ایف آئی اے کے مبینہ پروٹوکول میں بیرون ملک روانہ کیا گیا اور بعد ازاں اطلاعات کے مطابق وہ برطانیہ منتقل ہو چکی ہیں۔

اہم سوالات اور تفتیشی عمل کی خامیاں واضح ہیں۔یہ کیس ایف آئی اے کے نظام اور تفتیشی عمل پر کئی سوالات اٹھاتا ہے، جن میں سب سے نمایاں یہ ہیں:

اگر خاتون افسر کے خلاف انکوائری جاری تھی تو ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ یا اسٹاپ لسٹ میں شامل کیوں نہ کیا گیا؟

ایف آئی اے کو خاتون کے پانچ پاسپورٹس، ٹریول ہسٹری اور سرکاری ملازمت کے متوازی دوسرے پیشوں کی معلومات کیوں نہ مل سکیں؟

کیا دوہری شہریت سے متعلق چھان بین کی گئی؟

مقدمے میں شامل کیا گیا موبائل نمبر دراصل ایک اور سرکاری افسر تیمور حیدر کے نام پر رجسٹرڈ ہے، کیا اس معاملے پر کوئی چھان بین کی گئی؟

خاتون افسر نے اپنے تمام پاسپورٹس میں خود کو پرائیویٹ ملازم ظاہر کیا، کیا نادرا اور پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ سے اس فراڈ پر وضاحت طلب کی گئی؟

کیا ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر تساہل برتا یا کوئی اثر و رسوخ بروئے کار لایا گیا؟

ایف آئی اے کی خاموشی اور عوامی اعتماد پر سوال اٹھ رہے ہیں۔اس معاملے میں سب سے تشویش ناک بات ایف آئی اے کی خاموشی ہے۔ تفتیشی افسر سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ اگر ایف آئی اے جیسے ادارے سے جوابدہی کی توقع نہ رکھی جا سکے تو قانون کی عملداری کا کیا مستقبل ہو گا؟

یہ کیس نہ صرف ایک سرکاری افسر کے مبینہ غیرقانونی اقدامات کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہمارے تحقیقاتی ادارے کتنے غیر سنجیدہ اور غیر مؤثر انداز میں کام کر رہے ہیں خاص طور پر جب بات طاقت ور افراد کی ہو۔