Screenshot_2025_0502_180320

جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر کیا واقعہ پیش آیا؟

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر 9 جون کو ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکاروں نے ایک خاتون کرن سہیل کو اُس وقت روک لیا جب وہ موزمبیق جانے والی پرواز ET 695 پر سوار ہونے جا رہی تھیں۔ خاتون کے ہمراہ موجود نومولود بچے کے سفری دستاویزات پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے، جس کے بعد معاملہ انسانی اسمگلنگ کی سنگین واردات میں تبدیل ہو گیا۔

بچہ کس کا تھا اور کرن سہیل کون ہے؟

امیگریشن حکام کی ابتدائی تفتیش کے مطابق کرن سہیل اس نومولود کی حقیقی والدہ نہیں تھیں۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ بچے کی حوالگی اور سفری دستاویزات گارڈن ایسٹ کی ایک خاتون یاسمین نے دیے تھے، جو "جمانی سینٹر” کی رہائشی ہیں اور فلاحی کاموں میں سرگرم ہیں۔

سفری دستاویزات کیسے تیار کیے گئے؟

تحقیقات سے پتا چلا کہ جعلی برتھ سرٹیفکیٹ ڈاکٹر ممتاز ویانی نے اپنے کلینک سے جاری کیا، جس کی بنیاد پر نادرا کا سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ بنوایا گیا۔ برتھ سرٹیفکیٹ میں بچے کی پیدائش کی تاریخ 2 ستمبر 2024 درج تھی، جبکہ اس کے برعکس بچہ واضح طور پر نومولود تھا۔

موزمبیق میں کیا ہو رہا تھا؟

تحقیقات کے مطابق موزمبیق میں خاتون کے شوہر سہیل علی عرف شازی علی کا بھائی سیول پہلے سے موجود ہے، جس نے وہاں پر سفری دستاویزات تیار کروائے۔ اطلاعات ہیں کہ اس بچے کو موزمبیق پہنچانے پر ممکنہ طور پر 50 لاکھ روپے وصول کیے جانے تھے۔

کون کون ملوث ہے؟

ایف آئی اے نے اس کیس میں درج مقدمے کے مطابق 7 افراد کو نامزد کیا ہے، جن میں سے اب تک 4 کو گرفتار کیا جا چکا ہے ان ملزمان میں کرن سہیل (جعلی ماں)،سہیل سلطان (شوہر)،یاسمین ماوانی (بچے کی "ڈیل” کرنیوالی خاتون)،ڈاکٹر ممتاز ویانی (جعلی سرٹیفکیٹ جاری کرنیوالی ڈاکٹر)اوردیگر نامزد افراد میں سیول (موزمبیق میں مقیم)،حمیدہ عرف میجر مان (دارخانہ جماعت خانہ سے وابستہ)اورڈاکٹر لبنیٰ صدیقی شامل ہیں۔

کیا یہ کیس صارم برنی ٹرسٹ کیس سے جڑا ہے؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کیس میں وہی انداز، وہی طریقہ کار، اور وہی کمزوریاں سامنے آ رہی ہیں جو 2023 کے صارم برنی ٹرسٹ کیس میں نظر آئیں،بچے کا جھولے سے غائب ہونا یا ملنا،برتھ سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ میں جعل سازی،والدین کا غیر موجود ہونا،فلاحی ادارے یا ان سے جُڑے افراد کا کردار کیا ہے۔؟

لیکن کیا ایف آئی اے اس مرتبہ بہتر تفتیش کر پائے گی یا معاملہ دوبارہ دب جائے گا؟،بچے کے اصل والدین کون ہیں؟،یہ اس کیس کا سب سے اہم اور حساس سوال ہے۔ ایف آئی اے کو تاحال نومولود ریان کے حقیقی والدین کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کیا وہ بچہ جھولے میں ملا تھا؟ یا اغواء کیا گیا؟ یا کسی مالی سودے کے تحت حاصل کیا گیا؟

کیا یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے؟۔ایف آئی اے کی ابتدائی تفتیش بتاتی ہے کہ یہ کوئی انفرادی واردات نہیں بلکہ منظم گروہ کی کارستانی ہے، جس میں بیرون ملک روابط،جعلی سرکاری دستاویزات کی فراہمی،فلاحی کاموں کی آڑ میں بچوں کی خرید و فروخت شامل ہیں۔

فرقہ وارانہ پہلو کیوں اُبھر رہا ہے؟

مقدمے میں نامزد افراد کا تعلق اسماعیلی کمیونٹی سے ہے، جس پر سوشل میڈیا پر بعض حلقوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے فی الحال اس معاملے کو مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیاد کے بجائے جرم اور انسانی اسمگلنگ کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟

کیا ایف آئی اے اس بار مکمل، شفاف اور آزادانہ تفتیش کرے گی؟

کیا بچہ اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک کی جڑ تک پہنچا جا سکے گا؟

اور سب سے اہم: کیا پاکستان میں "جھولے” اب محفوظ نہیں رہے؟

یہ کیس پاکستان میں نومولود بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق ایک خطرناک، مگر تلخ حقیقت کی جھلک دکھاتا ہے۔ اگر صارم برنی ٹرسٹ کیس کی طرح یہ معاملہ بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا، تو اس کا مطلب صرف ایک بچہ کا نقصان نہیں بلکہ ہزاروں مستقبل کے بچوں کے لیے خطرہ ہوگا۔