بیٹری صنعت سے وابستہ آصف رزاق دینار کو ایف بی آر کارپوریٹ ٹیکس آفس حکام نے کسٹم کی خصوصی عدالت میں پیش کردیا۔

ملزم 14 مارچ کو دبئی سے کراچی پہنچا تھا جہاں ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں ہونے کے باعث انہیں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تعینات عملے نے روک لیا اور کارپوریٹ ٹیکس آفس حکام کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا جہاں ان کی ٹیم نے ملزم آصف رزاق داؤد کو حراست میں لے کر کسٹم کی خصوصی عدالت میں پیش کیا اور 8 دن کا ریمانڈ حاصل کیا۔

 

واضح رہے کہ آصف رزاق دینار حب بلوچستان میں قائم دینارانڈسٹریز کے مالک کراچی کے معروف بلڈرز میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے جب کہ ان کے خلاف 2018 کے بعد سے اب تک ایف بی آر کے مختلف شعبوں میں جعلی انوائسسز کے الزام میں 5 مقدمات درج ہیں جب کہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں بھی اسی الزام پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹ پر ایک مقدمہ درج ہوا ہے۔

ایف بی آر کے کارپوریٹ ٹیکس آفس کے جس مقدمے میں آصف رزاق دینار کو گرفتار کیا گیا یے اس مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں ہے جب کہ 2023 کے درج اس مقدمے کی تحقیقات کے دوران ان کا نام سامنے آیا تھا جس کی بنیاد پر کارپوریٹ ٹیکس آفس حکام نے انکا نام بورڈ میں ہی رہنے دیا اور ان کی پاکستان واپسی کا انتظار کرنے لگے اور اسی بنیاد پر ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی شامل کیا گیا۔

یاد رہے کہ آصف رزاق دینار کے حوالے سے ایف بی آر کے حلقوں میں مشہور ہے کہ وہ جعلی انوائسسز سے حاصل رقم کا دس فیصد ہر برس ایف بی آر حکام میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ ان کا یہ کاروبار چلتا رہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ جب انہیں کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حراست میں لیا گیا اور پھر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ شکوہ اپنے ملنے والوں کے ساتھ کیا کہ 2023 میں مبینہ طور پر 8 کروڑ روپے تقسیم ہوئے پھر کیوں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو انہیں بتایا گیا کہ تفتیشی ٹیم تبدیل ہوگئی ہے۔

ایف ابی آر کارپوریٹ ٹیکس آفس کے اس مقدمے میں مجموعی طور پر نامزد ملزمان کی تعداد 33 سے زائد ہے جس میں بیٹری سیکٹر کے بڑے نام ایکسائیڈ بیٹری کے سید حیدر مہدی ،سینچری انجنئیرنگ پرائیوٹ لمیٹڈ المعروف فونیکس بیٹری کے سلمان جاوید صدیقی،سندھ کے بڑے بیٹری سیکٹر سے وابستہ میٹ پاک پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک زاہد امین سیٹھی مفرور ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں اور اتفاقی طور پر ان مفرور ملزمان کا نام اسٹاپ لسٹ میں شامل نہیں ہے اور یہ ملزمان باآسانی سفر کرسکتے ہیں جب کہ ان ملزمان نے ضمانت کے لئے بھی عدالت سے رجوع کرنے کی زحمت نہیں کی ہے اس مقدمے میں نامزد بیشتر ملزمان ایسے ہیں جن کے نام پر جعلی انوائسسز اور کمپنیاں بنائی گئی اور ان کے شناختی کارڈ کا سہارا لینے کے لئے انہیں ماہانہ دس سے 20 ہزار روپے اجرت ملتی ہے اور ان کی گرفتاری خود تفتیشی افسران کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

ایف بی آر کے کارپوریٹ ٹیکس آفس کے جس مقدمے میں آصف رزاق دینار کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اس مقدمے میں مجموعی طور پر ہونے 7 ارب کی جعلی انوائسسز استعمال کرنے کا ملزمان پر الزام ہے جب کہ اس میں آصف رزاق دینار پر کی جعلی انوائسسز کا حجم 11 کروڑ 40 لاکھ روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔

ملک بھر میں بیٹری سیکٹر سے وابستہ 100 فیصد کمپنیاں زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے بیٹری کی تیاری کا اہم عنصر سیسہ (لیڈ)کی خریداری کباڑ سے کرتی ہیں اور اس کی خریداری اصل ظاہر کرنے کے لئے جعلی کمپنیاں بنائی گئی ہیں اور ان کمپنیوں کے نام پر اصل قیمت کی جعلی انوائسسز تیار کی جاتی ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ 60 ارب کے لگ بھگ نقصان پہنچتا ہے۔

ایف بی آر کے مختلف شعبہ جات میں بیٹری سیکٹر کے لئے استعمال ہونے والی جعلی انوائسسز کے مقدمات میں کاروباری کمپنیوں کی نشان دہی ہوئی کہ یہ کمپنیاں منافع حاصل کرنے کے لئے جعلی انوائسسز کا سہارا لیتی ہیں لیکن کسی بھی مقدمے کی تفتیش میں یہ بات سامنے نہیں آسکی کہ یہ جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کیسے ہوتی ہیں ان کی جعلی انوائسسز ایف بی آر کے سسٹم میں آتی کیسے ہیں اور ان جعلی انوائسسز پر کیسے ریفنڈز جاری ہو جاتے ہیں اور نہ ہی ایف بی آر کے مقدمے کی تفتیش کے دوران بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نا ہی ان ہی ان کے خلاف شواہد اکٹھے کئے جاتے ہیں کہ ان کے اثاثہ جات ضبط کر کے قومی خزانے کو نقصان پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔

بیٹری سیکٹر سے وابستہ بڑے نام جب سے استعمال شدہ بیٹریوں کا خام مال نئی بیٹریوں کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں اس کے بعد سے بیٹریوں کی زندگی تین سال سے کم ہوکر ایک برس تک ہی محدود ہوگئی ہے۔

بیٹری صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ خام مال کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے نان رجسٹرڈ سیکٹر سے خام مال خرید کر ری پروسیسنگ کے بعد قابل استعمال کرتے ہیں۔

1 thought on “کراچی ایئرپورٹ پر گرفتار بیٹری صنعت سے وابستہ آصف رزاق دینار کسٹم کی عدالت میں پیش

Comments are closed.