ایف آئی اے نے بے نامی کمپنیوں اور اسمگلنگ نیٹ ورک سے منسلک حوالہ ہنڈی کے اہم کردار کے خلاف درج تاریخی قرار دئیے گئے مقدمے میں اپیل کا حق بھی گنوا دیا، اربوں روپے مالیت کے اسکینڈل میں اہم شواہد کو نظر انداز کر کے تفتیش کو کمزور کیا گیا ،عدالت نے ناقص تفتیش کو بنیاد بنا کر ملزم کو۔مقدمے سے بری کیا۔

ایف آئی اے کراچی نے تاخیر حربوں کے بعد اپیل کرنے سے گریز کیا ،ایف آئی اے کے اس مقدمے سے بے نامی کمپنیوں اور اسمگلنگ کے لئے حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک چلانے والے طاقتور گروہ کو بے نقاب کرسکتا تھا جبکہ ایف آئی اے کی ناقص تفتیش نے ثابت کیا کہ کیسے وفاقی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے اور اپنی من پسند نتائج ملنے یا فریق کے حاوی ہونے کے بعد کیسے تبدیل کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی ایس ٹی آر پر 2019 میں ڈی جی ایف آئی اے آفس سے ایف آئی اے روالپنڈی کو تحقیقات کا حکم دیا گیا لیکن اکاوئنٹ کی ملکیت کمپنی کا دفتر کراچی ہونے کی وجہ سے اس تحقیقات کو ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی منتقل کیا گیا اور انکوائری نمبر 26/2019 شروع کی گئی اور اس انکوائری کے دوران تفتیشی افسر احمد خان میرانی نے جولائی 2021 میں اس کیس کے مرکزی کردار عبد الواسع کو نوٹس کے زریعے طلب کیا اور عبد الواسع سے مختلف بینکوں میں 30 اکائونٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن سے متعلق اور ان کے کاروبار کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے جس کا وہ جواب نہیں دے سکا اور ایف آئی اے نے خالد بن ولید روڈ پر پرانی گاڑیاں فروخت کرنے والے ایک شوروم اور بولٹن مارکیٹ یوسف پلازہ میں دفتر پر چھاپہ مارا جہاں سے اسمگل سگریٹس اور اس کا ریکارڈ ملا

اس بنیاد پر مقدمہ الزام نمبر 8/21 درج کیا گیا جس میں حوالہ ہنڈی اور کسٹم ایکٹ کی دفعات درج کی گئیں اور ایف آئی اے نے حوالہ ہنڈی کا چالان ڈسٹرکٹ جج جنوبی اور کسٹم ایکٹ کا چالان کسٹم کورٹ میں پیش کیا اور دونوں جگہ علیحدہ علیحدہ کیس چلایا جس وقت یہ کیس درج کیا گیا اس وقت ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی عامر فاروقی تھے اسی دوران ایف آئی اے نے فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے تسلسل میں منی لانڈرنگ کی دفعات پر مقدمہ درج کیا جائے کیونکہ 2021 فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی فہرست میں پاکستان گرے لسٹ میں شامل تھا اور اسمگلنگ نیٹ ورک غیر قانونی کاروبار حوالہ ہنڈی سے وابستہ عناصر کے خلاف مقدمے کے فوری بعد یا تو منی لانڈرنگ کی انکوائری شروع کی جاتی یا مقدمہ درج ہوتا تھا اس مقدمے کی تحقیقات میں عبد الواسع کی ایک بھارتی کمپنی جودھ پور ڈرائی پورٹ تھر یونٹ میں میسرز ہستی پیٹرو کیمیکل اینڈ شپنگ لمیٹڈ کا انکشاف ہوا اور عںبدالواسع کے عزیز واقارب کے 29 مزید اکائونٹس کا سراغ لگایا گیا جس کے ہر اکاؤنٹ میں یومیہ 20 لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم منتقل ہوتی اور اسی طرح نکل بھی جاتی تھی اور اس طرح ان اکاؤنٹس میں چند برس کے دوران اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی اور عبدالواسع اتنی بھاری ٹرانزیکشن کا ایف آئی اے کو مطمئن نہیں کرسکا اور بیان دیا کہ کاروبار میں کمیشن ملتا ہے اور یہ وہ کمیشن کی رقم ہے اور اسی لئے ایف آئی اے نے مجموعی طور پر 60 اکائونٹس اور ان کھاتوں سے کراچی اسلام آباد کوئٹہ پشاور میں 5 ارب روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کرلیں۔

2021 میں جب یہ کیس ایف اے ٹی ایف میں رپورٹ کیا گیا تو اس کیس کو سراہا گیا کہ ایف آئی اے نے اچھا کیس درج کیا گیا اس دوران اس کیس میں معروف صحافی محسن بیگ پر ایف آئی اے نے الزام عائد کیا کہ وہ اس کیس کو کمزور کرنے کے لئے ایف آئی اے پر دباؤ دے رہے ہیں جبکہ عںبدالواسع نے تفتیشی افسر احمد خان میرانی پر چالیس کروڑ رشوت طلب کرنے کا الزام عائد کیا اور اسی بنیاد پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی میں محسن بیگ سمیت دیگر پر ایک مقدمہ درج کیا تھا جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا تھا جب کہ ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ جج ساوتھ نے عبدالواسع کے ایف اآئی اے کے مقدمات میں منجمد کئے گئے بینک اکاوئنٹس کھولنے کے آرڈر جاری کئے جس کے خلاف ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل نے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عدالت سے جاری ہونے والے آرڈر کی بنیاد پر عبدالواسع نے میزان بینک اور بینک الحبیب کی بولٹن مارکیٹ یوسف پلازہ کے قریب برانچز میں عدالتی اآرڈر پر ایسے اکاوئنٹس بحال کروا دئیے اور اکاوئنٹس سے 70 کروڑ کے لگ بھگ رقم نکلوا لی گئی جس کا علم جب ایف اآئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کو ہوا تو انہوں نے بینکرز سے کہا کہ یہ کیسے ہوا تو بینک نے وہ اکاوئنٹ دوبارہ بلاک کردئیے جس پر اسٹیٹ بینک سرکل نے دونوں بینکوں کے خلاف کرمنل انکوائری کے لئے ڈائریکٹر اآفس سے اجازت طلب کی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ انکوائری شروع نہیں ہوسکی اسی دوران وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور سابق ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی نے اس کیس میں حوالہ ہنڈی کے چالان سے عدالت میں دستبردار ہونے کی منظوری دی جس کا اثر منی لانڈرنگ کیس پر بھی پڑا ۔

18 ستمبر 2023 کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج 10 جنوبی نے اس مقدمے کا فیصلہ عںبدالواسع کے حق میں دیتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔جس وقت عدالت نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیا اس وقت موجودہ ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون ضعیم اقبال شیخ نے عہدہ سنبھالا تھا اور ان کا اس کیس سے متعلق موقف تھا کہ اس کیس کی تفصیلات حاصل کروں گا اور لیگل ٹیم سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا جس کے بعد چھ ماہ کی مدت گزرنے کے بعد جب اس کیس میں اپیل کرنے کی مدت گزر گئی اس کے بعد ایف آئی اے کراچی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس کیس پر اپیل نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ اس کیس سے جڑے افراد سے متعلق تحقیقات میں اہم شواہد ملے تھے جسے کیس کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا تھا اب وہ کس مقصد کے لئے استعمال ہوں گے اس کا۔ فیصلہ آنے والا وقت کرئے گا بہرحال ایک اہم کیس تمام سرکاری وسائل استعمال کرنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گیاہے جو ایف آئی اے کو بطور ادارہ مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی اہم نظیر بن گیا ہے ۔